ذات پات، اونچ نیچ اور عدم برداشت میں غرق انسان اپنے ذاتی اور سیاسی مقاصد کے لئے دوسرے انسانوں کے درمیان نفرت کے بیج کو مزید پروان چڑھانے پر تلا ہوا تھا۔ اس وقت انسان محض اپنے گھر کا چولہا جلانے کے لئے انسانوں کو خدا کی حقیقت تک رسائی سے دور رکھ کے من گھڑت قصوں تک محدودرکھنے میں کامیاب ہوچکا تھا۔دوسری طرف معاشرے میں عورت کا جینا محال تھا۔ برہمن کے نت نئے طور طریقوں سے عورت کو ستی جیسے بے رحم رسم کی بھینٹ چڑھایا جا رہا تھا۔ساتھ ہی برہمن کھشتری اپنی اعلیٰ ذات کی خام خیالی میں بد مست ہاتھی بن کر کسی پر بھی چڑھ دوڑنے کو تیار تھے۔ جہاں ویش اور شودر کو عبادت کی اجازت تھی اور نہ ان کے ساتھ بیٹھنے، کھانا کھانے حتیٰ کہ ان کو چھونے تک کی بھی اجازت نہ تھی۔ ایک خدا کو بھول کر مزاروں اور دیوی دیوتاؤں کی پوجا عام تھی۔ مذہب کی بنیاد پر اہل ہند ایک دوسرے پر پیر، فقیروں اور اوتاروں کی دھرتی کو تنگ کرنے پر تلے تھے۔ ’’کون بھلا کون مندا‘‘ کی رٹ لگا ئے سب ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن چکے تھے۔ظلم و ستم کا بازار گرم تھا۔ غریب کی آہ وپکار سننے کو کوئی تیار نہ تھا۔ ایسے میں بقول علامہ محمد اقبال کے
بت کدہ پھر مدت کے مگر روشن ہوا
نور ابرہیم سے آزر کا گھر روشن ہوا
پھر اٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے
ہند کو اک مرد کامل نے جگایا خواب سے
بابا گورونانک پندرہ اپریل چودہ سو انہتر عیسوی میں رائے بھوئی دی تلونڈی،جو اَب ننکانہ صاحب کے نام سے جانا جاتا ہے، کے ایک ہندو گھرانے مہتا کلیان داس بیدی کے گھر پیدا ہوئے۔ ان کے والدکھیتی باڑی کے ساتھ ساتھ حاکمِ وقت کے پٹواری کے منصب پر بھی کام کرتے تھے۔ اعلیٰ ذات سے تعلق ہونے کی وجہ سے معاشرے میں ان کی خوب آؤ بھگت ہوتی تھی۔ بچے کا نام ’’نانک‘‘ رکھ دیا گیا۔ نانک گاؤں کے بچوں سے بالکل مختلف تھا۔جب بچے کھیل کود میں لگے ہوتے، تو نانک آنکھیں بند کرکے مراقبہ میں کھو جاتے۔ پانچ سال کی عمر میں نانک کو مقدس پیغامات پر مشتمل آوازیں سنائی دینے لگیں۔ آٹھ سال کی عمر میں ان کو سکول سے فارغ کردیا گیا ۔ ان کے استاد نے ان کے والدین سے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ یہ بچہ کوئی عام ہے اور نہ ہمارے پاس اس کے سوالات کے جوابات ہی ہیں۔ دوسرے والدین کی طرح ان کے والدین بھی پریشان رہنے لگے۔ ان کے والد نے نانک کو گائے بھینس چرانے کے کام پہ لگا دیا، تو وہ گائے بھینسوں کو چرانے کا عمل چھوڑ کر خدا کی عبادت میں لگ جاتے۔ ایک دن ایک کسان نے جب دیکھا کہ نانک آنکھیں بند کرکے مراقبہ میں مشغول ہیں اور مویشی سارا کھیت تباہ کرچکے ہیں، تو اس پر کسان غصے سے لال پیلا ہوگیا۔ وہ شکایت لے کر ان کے والد کے پاس گیا۔ جب ان کے والد اور کِسان، دونوں نانک کی خبر لینے کھیت پہنچے، تو کسان یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ جس طرح تباہ حال کھیت وہ چھوڑ آیا تھا، وہ پھر سے ہرا بھرا پڑا ہے اور نانک اپنی دُھن میں مست اپنی عبادت میں مشغول ہیں۔

بابا گورونانک پندرہ اپریل چودہ سو انہتر عیسوی میں رائے بھوئی دی تلونڈی،جو اَب ننکانہ صاحب کے نام سے جانا جاتا ہے، کے ایک ہندو گھرانے مہتا کلیان داس بیدی کے گھر پیدا ہوئے۔ (Photo: thinglink.com)

ایک دفعہ نانک کے والد نے کاروبار کی غرض سے ان کو بیس روپے دیئے،لیکن نانک جب میلے کے قریب پہنچے، تو کئی فقیروں کو بھوکا دیکھا۔ انہوں نے اُن بیس روپوں سے فقیروں کو کھانا خرید کر دیا۔ اس مقام پر اب ’’گوردوارہ سچا سودا‘‘ بنا ہوا ہے، جو لاہور سے سینتیس میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ نانک کے والد کو جب اس واقعے کا پتا چلا، تو غصے سے نانک کے گال پر ایک زوردار تھپڑ رسید کیا اور کہا کہ میں نے تمہیں سودا لینے کے لئے بھیجا تھا، تم خالی ہاتھ آگئے۔ نانک نے بڑی معصومیت سے جواب دیا کہ’’ سودا تو کیا ہے، پر سچ کا سودا ہے۔‘‘
نانک کی بہن بی بی نانکی جو عمر میں نانک سے پانچ سال بڑی تھیں، نانک کی کم عمری کی مقدس خصوصیات سے واقف اولین فرد تھیں۔ نانک کی شادی بٹالہ کے ُمل چند کی بیٹی بی بی سلکھنی سے ہوئی، جن کی کوکھ سے دو بچوں نے جنم لیا۔ بابا لکشمی داس اور بابا سری چند۔ گورو نانک روز ایک ندی پہ نہانے کے لئے جاتے اور اسی ندی کنارے اپنی عبادت میں مشغول ہوجاتے۔ایک دن حسبِ معمول نانک اسی دریا میں نہانے گئے پر کافی دیر کے بعد بھی ندی سے باہر نہ آئے۔ پورے گاؤں میں نانک کی فوت ہونے کی افواہیں گردش کرنے لگیں۔تین دن بعد گاؤں والے یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے کہ نانک اسی دریا کے کنارے بیٹھے عبادت میں مشغول ہیں۔ سکھ عقیدے کے مطابق گورو نانک ان تین دنوں میں خدا کے دربار میں حاضر ہونے گئے تھے۔

نانک کی شادی بٹالہ کے ُمل چند کی بیٹی بی بی سلکھنی سے ہوئی، جن کی کوکھ سے دو بچوں نے جنم لیا۔ بابا لکشمی داس اور بابا سری چند۔ (Photo: Sikh Heritage)

اب وہ عام نانک ’’گورو نانک‘‘ بن گئے تھے۔ ان کی سوچ میں ایک بدلاؤ پیدا ہوگیا تھا۔ اس کے بعدگورونانک دیو جی اپنے بچپن کے دوست بھائی مردانہ کے ساتھ دنیا کی یاترا کرنے نکل پڑے۔ ان کے دوست کا تعلق مسلم گھرانے سے تھا۔ رباب بجانے میں ان کاکوئی ثانی نہ تھا۔ وہ ہمیشہ اسی رباب پہ کلامِ رب کی دھن بجاتے۔ دونوں دوست خدا کا پیغام لے سچ کے اس طویل، مشکل اور دشوار سفر کے مسافر بن گئے۔ در بدر مصائب، تکالیف اور مصیبتیں لیکن اس کے باوجود یہ سفر ناممکن نہ تھا۔ باباگورونانک جی افغانستان سے ہوتے ہوئے روس، چین، سری لنکا، تبت، بھوٹان ،نیپال ،ایران ،عراق اور عرب تک حق کا پیغام لے کر پہنچے۔ جہاں جہاں گورو نانک دیو تشریف لے جاتے رہے، دکھی انسان سوالوں کا پلندہ لے کرآتے رہے۔ یوں باباگورونانک ان کے سوالوں کی گتھیاں سلجھانے میں جت جاتے۔

گورو نانک دیوجی نے ساری عمر انسانوں کو بھائی چارے، نیکی، مساوات، حسن سیرت کا سبق سکھایا۔ انہیں اوچ نیچ اور ذات پات کے فرسودہ نظام سے نکال کر برابری کا درس دیا۔ دیوی دیوتاؤں، مزاروں اور تصویروں کی پوجا کی سختی سے ممانعت کی۔ اس ایک خدائے یکتا جو پیدا کرنے اور مارنے والا ہے، اپنی ذات میں اکیلا اور سچ ہے، کی عبادت کا درس دیا۔
شمعِ حق جو منور ہو وہ یہ محفل نہ تھی
بارش رحمت ہوئی پر زمیں قابل نہ تھی

…………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔