’’کشمیر بنے گا پاکستان!‘‘ کہنے اور سننے کے اعتبار سے تو یہ نعرہ بہت دلفریب ہے مگر عملی طور پر یہ ایک بھیانک خواب ہی نظر آتا ہے۔ بزرگوں نے درست فرمایا ہے کہ کہنے اور کرنے میں بہت فرق ہوتا ہے اور یہی معاملہ اس نعرے کے ساتھ بھی ہے۔ درحقیقت اس نعرے کو بھیانک خواب بنانے میں اندرونی عوامل نے زیادہ اور بیرونی نے کم کردار ادا کیا ہے۔ وہ ایک شاعر فرماتے ہیں کہ

ہمیں اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا
میری کشتی تھی وہاں ڈوبی جہاں پانی کم تھا
کشمیری عوام کی کشتی بھی ہم نے 70 سال پہلے اپنے ہاتھوں سے ڈبوئی ہے۔ ہمارے مؤرخ جس پہلو کو چھپاتے ہیں، آئیے اسے لوگوں کے سامنے رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
3 جون 1947ء کو تقسیمِ ہند پلان کے اعلان کے بعد وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن، نہرو اور جناح نے 545 کی لگ بھگ شاہی ریاستوں پر زور دیا کہ وہ دونوں ممالک میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کریں، لیکن الحاق کرتے وقت دو باتوں کا خیال ضرور رکھیں:
1:۔ الحاق اپنے اکثریتی عوام کے اُمنگوں کے مطابق کیا جائے۔
2:۔ الحاق کرتے وقت جغرافیائی حیثیت کا لازمی طور پر خیال رکھا جائے۔
اس اعلان کے بعد تقریباً تمام ریاستوں نے کسی ایک ملک میں شامل ہونے کا انتخاب کیا، لیکن تین ریاستوں کے معاملات پاکستان اور بھارت کے بیچ تنازعے کا سبب بنے۔ اوّل تو جوناگڑھ ریاست جو ایک ہندو اکثریتی ریاست تھی اور جو کراچی سے 60 میل دور گجرات کے ساحل پر واقع تھی، کے مسلمان نواب نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی درخواست کی۔ اس طرح ریاست حیدرآباد جو کہ اس وقت ایک خوشحال مگر ہندو اکثریتی ریاست تھی اور جس کے نواب عثمان خان کو ’’فوربس‘‘ جریدے نے 1938ء میں دنیا کا امیر ترین انسان ڈکلیئر کیا تھا، نے پہلے ایک آزاد ریاست کی حیثیت کو ترجیح دی لیکن کسی تیسرے ملک بننے کی برطانوی حلقوں میں پزیرائی نہ ہونے کی وجہ سے ریاست کے نواب نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی درخواست کر دی۔ یہ واقعات ستمبر 1947ء کے ہیں۔ اب اس حالت میں کہ دو ہند اکثریتی ریاستوں کے نوابوں نے عوامی امنگوں کے برعکس پاکستان میں شامل ہونے کی درخواست کی تھی، نے ہندوستانی حلقوں میں شدید بے چینی پیدا کر دی۔ اس طرح پاکستان بھی گومگوں کیفیت کا شکار تھا۔ کیونکہ یہ ریاستیں پاک بھارت کے بیچ کسی بڑے تنازعے کا سبب بن رہی تھیں۔ اس دوران میں کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے دونوں ممالک کے ساتھ "Stand Still” ایگریمنٹ پر دستخط کر دیے، لیکن ان دنوں پونچھ ڈویژن میں مسلمانوں کے ایک پُرامن جلوس پر ڈوگرہ فوج نے فائرنگ کی جس کے نتیجے میں بہت سے مسلمان شہید ہوئے ۔ اس فائرنگ کے نتیجے میں سردار عبد القیوم خان (’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ نعرے کے خالق) اور سردار محمد ابراہیم خان (مجاہد اوّل) نے ڈوگرہ راج کے خلاف مسلح مزاحمت شروع کی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے پوری وادی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ڈوگرہ فوج کے سربراہ کے ایک لڑائی میں مارے جانے کے بعد مہاراجہ خوف کی وجہ سے جموں منتقل ہوگئے اور پاکستانی قبائل کی اس لڑائی میں شامل ہونے کی صورت میں اُس نے ہندوستان سے الحاق کی دھمکی دے دی۔ اب صورتحال نے جب بہت گھمبیر صورتحال اختیار کر دی، تو ہندوستانی قیادت نے ’’وی پی مینن‘‘ کی قیادت میں ایک وفد لاہور بھیجا جس کے ذمے پاکستان کے ساتھ ان تینوں ریاستوں کے مستقبل کے بارے میں بااختیار مذاکرات کرنے تھے۔ اس وفد نے پاکستانی حکام کو ایسی بہترین پیشکش کردی جس کے نتیجے میں مسلۂ کشمیر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے حل ہوجاتا۔

مہاراجہ ہری سنگھ (Photo: Kashmir Life)

وی پی مینن کی قیادت میں بھارتی وفد نے لاہور میں پاکستانی وزیراعظم کو پیشکش کی کہ اگر پاکستان ریاست جوناگڑھ کے الحاق کو مسترد کرکے ریاست حیدرآباد پر اپنا مؤقف تبدیل کرے، تو بھارت کشمیر سے دستبردار ہوجائے گا۔ جب لیاقت علی خان نے یہ پیغام گورنر جنرل محمد علی جناح کو پہنچایا، تو انہوں نے جواب میں کہا کہ کشمیر ایک پکے ہوئے پھل کی طرح ہماری جھولی میں گرے گا۔ ہمیں بھارت سے جوناگڑھ، رام پور اور حیدرآباد لینے کیلئے مذاکرات کرنے ہوں گے اور ان ریاستوں کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے بارے میں سوچنا چاہئے (ان الفاظ کی تصدیق ذوالفقار علی بھٹو نے 1972ء میں بحیثیت صدر پاکستان، خیبر ایجنسی میں ایک تقریر کے دوران میں کی تھی)۔ یہ جواب سن کر بھارتی وفد واپس چلا گیا اور بھارت نے کشمیر سمیت تمام ریاستوں پر جارحانہ پالیسی شروع کی اور وی پی مینن کو سرینگر بھیجا، تاکہ وہ مہاراجہ کو بھارت کے ساتھ الحاق پر راضی کرسکے۔ اس دوران میں پاکستان نے 22 ستمبر 1947ء کو ریاست جوناگڑھ کے الحاق کی درخواست قبول کرلی۔ اس اقدام کو بھارتی قیادت نے پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف تصور کیا۔ یہ دراصل ریاست جوناگڑھ کی عوامی خودارادیت کی نفی تھی جس پر پاکستان، برطانیہ کی پشت پناہی سے بھی محروم ہوگیا۔ بدقسمتی سے ہمارے مؤرخین ان واقعات کے بارے میں اپنے قوم کو صحیح آگاہ نہیں کرتے جس کی وجہ سے پوری قوم ایک مسخ شدہ تاریخ کو سچ ماننے پر مجبور ہے۔

کشمیر ایک پکے ہوئے پھل کی طرح ہماری جھولی میں گرے گا۔ ہمیں بھارت سے جوناگڑھ، رام پور اور حیدرآباد لینے کیلئے مذاکرات کرنے ہوں گے اور ان ریاستوں کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے بارے میں سوچنا چاہئے، قائد اعظم۔

ریاست جوناگڑھ والے واقعے کے بعد بھارت نے مہاراجہ کو اپنے ساتھ الحاق پر راضی کرلیا اور مہاراجہ نے 26 اکتوبر 1947ء کو بھارت کے ساتھ الحاق کی درخواست کی جسے اُسی دن بھارت کے گورنر جنرل ماؤنٹ بیٹن نے قبول کرلیا۔ بھارت نے بذریعہ ہوائی جہاز سرینگر میں اور زمینی راستے سے جموں میں فوجیں داخل کردیں۔ اسی پوائنٹ پر پہنچ کر صورتحال بہت گھمبیر ہوچکی تھی۔ دوسری طرف پاکستانی فوج کے چند افسروں نے اکتوبر کے اوائل میں ہی کشمیر کو مسلح جدوجہد کا ایک نامکمل منصوبہ بنایا۔ ان افسروں میں کرنل اکبر خان اور جنرل کیانی (کیانی سبھاش چندر بھوس کے INA میں جنرل رہ چکے تھے) شامل تھے۔ جنرل کیانی نے طارق بن زیاد کے نام پر طارق فورس بنائی اور خود جنرل طارق کا فرضی نام اختیار کیا۔ اب یہ پوری کہانی لیاقت علی خان ذاتی ایما پر رچا رہا تھا جس سے قائد اعظم اور فوجی قیادت دونوں بے خبر تھے۔ لیاقت علی نے پنجاب کے ایک صوبائی وزیر شوکت حیات اور خورشید انور کو اس مہم کی ذمہ داری سونپ دی۔ مہم کے آغاز میں ہی شوکت اور خورشید سویلین قیادت جبکہ کرنل اکبر خان اور جنرل طارق مسلح قیادت پر دست و گریباں ہوگئے اور کرنل اکبر خان نے ایک قدم آگے بڑھ کر اپنی قیادت میں ایک الگ فورس ’’آزاد فورس‘‘ کے نام سے بنائی۔ کرنل اکبر اور جنرل طارق کی ذاتی چپقلش اتنے عروج پر پہنچ چکی تھی کہ وہ دونوں جنگ عظیم دوم میں پڑنے والی ایک روایت کے تحت اپنے آپ کو فیلڈ رینک میں ترقی دیتے تھے۔ اگر ایک دن ایک آفیسر اپنے رینک میں اضافہ کرتا، تو دوسرے دن دوسرا آفیسر اپنے آپ کو ترقی دیتا اور یہ صرف دونوں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے کر رہے تھے۔ یہ مقابلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک دونوں فیلڈ مارشل کے رینک تک پہنچ گئے۔ اس دوران میں ایک دلچسپ صورتحال پیدا ہوگئی، وہ یہ کہ آزاد کشمیر میں جو آزاد حکومت قائم کی گئی تھی، اس کے وزیر دفاع کیلئے رینک نہیں مل رہا تھا۔ کیوں کہ پہلے سے ہی دو فیلڈ مارشل موجود تھے۔ اب اس مسلئے کا یہ حل نکالا گیا کہ وزیر دفاع کو جرمن فوج کی طرز پر کیپٹن جنرل کا رینک دیا گیا۔ یہ تو لڑنے کا ہمارا مورال تھا۔ اس کشمش کے دوران میں دونوں فورسز سرینگر کے پہاڑوں تک پہنچ گئیں اور اس لشکر کے سپاہی مرتے دم تک سرینگر شہر کی روشنیوں کو یاد کرتے رہے۔

بھارت کے گورنر جنرل ماؤنٹ بیٹن (Photo: ndtv.com)

اس دوران میں سرینگر شہر میں داخلے کو ایمونیشن کی کمی کی وجہ سے چند دن کیلئے مؤخر کیا گیا، لیکن آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ اسلحے کی ترسیل میں جان بوجھ کر تاخیر کی گئی۔
اس وقت جب دونوں فورسز کو اسلحے کی شدید ضرورت تھی اور سرینگر صرف 35 میل کے فاصلے پر تھا، اس وقت خورشید انور اور شوکت حیات میں یہ نہیں طے پا رہا تھا کہ فاتح کشمیر کون ہوگا؟ اس وجہ سے اسلحہ بروقت نہیں پہنچ سکا اور دوسری طرف کرنل اکبر خان اور جنرل طارق میں یہ طے نہیں ہو رہا تھا کہ فاتح افواج کس کی سربراہی میں سرینگر شہر میں داخل ہوں گی۔ اگر اس وقت ذاتی انائیں رکاؤٹ نہ بنتیں، تو سرینگر ائیرپورٹ پر قبضے کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کیلئے کشمیر ہمارا ہوجاتا۔ اس وقت تک پاکستانی فوج کے کمانڈر انچیف جنرل سر فرینک میسروی اس تمام ایڈونچر سے بے خبر تھے۔ انہیں جب پتا چلا، تو انہوں نے ان افسران کے پلان پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ انہوں نے تجویز دی کہ ایک بٹالین پاکستانی فوج کو سادہ کپڑوں میں سرینگر پر قبضے کیلئے بھیج دیا جائے، جن کی سپورٹ کیلئے دو فضائی اسکواڈرنز بھی ہوں گے۔ اس کے علاوہ دو کمپنیوں کو بنھیال پاس میں بھیج دیا جائے۔ اس نے کہا کہ اگر اس پلان پر عمل کیا جائے، تو کشمیر 100 فیصد ہمارا ہوجائے گا۔ لیکن اس وقت فیصلہ کرنے والی کرسی پر ایک کمزور شخصیت کا حامل شخص لیاقت علی خان بیٹھا ہوا تھا جس میں بولڈ فیصلے کرنے کی سکت نہیں تھی۔ جنرل میسروی کے پلان کو قبول نہیں کیا گیا جس کے بعد وہ سیاسی قیادت کے غیر ذمہ دارانہ رویے سے دلبرداشتہ ہوکر مستعفی ہوگئے اور جنرل گریسی نئے کمانڈر انچیف بن گئے۔ اس دوران میں بھارتی افواج نے موجودہ مقبوضہ کشمیر پر قبضہ کر لیا تھا اور موسم سرما میں کشمیر اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ نقل و حرکت کی جا سکے۔ نئے کمانڈر انچیف جنرل گریسی نے ایک جامع پلان بنا کر پاک فوج کے 7 ڈویژن کو موجودہ لائن آف کنٹرول پر تعینات کرکے آفیشل جنگ شروع کر دی۔

جنرل سر فرینک میسروی (Photo: Pak Army Museum)

یہ واقعات اپریل 1948 کے بعد کے ہیں۔ پاک فوج نے کامیابی سے سکردو کو آزاد کرکے شمالی اطراف سے پیش قدمی شروع کردی جبکہ جموں اور پونچھ کے محاظ پر میجر جنرل حبیب اللہ خان خٹک (بعد ازاں لیفٹیننٹ جنرل اور لیفٹیننٹ جنرل علی قلی خان کے والد) کامیابی سے آگے بڑھ رہے تھے کہ ایک دن جبکہ جنگ زوروں پر تھی، تو حبیب اللہ خان کو وزیراعظم کا فون آیا۔ حبیب اللہ خان اس فون کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’وزیراعظم نے مجھے فون پر کہا کہ حبیب! ہمیں کشمیر پلیٹ میں مل رہا ہے۔ اگر ایک بھی پاکستانی فوجی مرا، تو اس کے ذمہ دار تم ہوگے۔‘‘ حبیب اللہ خان نے جواب میں کہا کہ ’’سر ، انسانی تاریخ میں کتنے علاقے ہیں جو پلیٹ میں حاصل کئے گئے ہیں؟‘‘ یہ جواب سن کر لیاقت علی نے غصے سے فون کاٹ دیا۔ حبیب اللہ خان یہ بھی کہتے ہیں کہ جولائی 1947ء میں سرینگر کے حالات کو بھانپتے ہوئے واپسی پر راولپنڈی میں، میں نے کرنل اکبر خان کو تجویز دی کہ اگر ایک کمپنی فوج کو سادہ کپڑوں میں سرینگر بھیج دیا جائے، جو ائیر پورٹ کے آس پاس کے درختوں کو کاٹ کر ائیرپورٹ کو ناقابل استعمال بنا دیں لیکن اکبر خان نے جواب دیا کہ ’’جی ایچ کیو‘‘ میں اس سے بہتر پلان بن رہے ہیں۔
پاکستان نے اس وقت یہ عظیم غلطی کی کہ کامیاب فوجی آپریشن کو بیچ میں چھوڑ کر اقوام متحدہ پر انحصار شروع کردیا جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ اس کے بعد بھی پاکستان نے 1965ء اور 1999ء میں کشمیر حاصل کرنے کی بہت کوششیں کی، لیکن شروع والا موقع ضائع کرنے بعد آج تک ہم صرف یہ نعرہ ہی لگا رہے ہیں کہ ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ لیکن اس کو عملی جامہ پہنانا اب ناممکن ہی نظر آ رہا ہے اور اسے ناممکن کسی اور نے نہیں ہم نے خود بنایا ہے۔

………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔