بہاولپور اسلام آباد سے 629کلومیٹر کے فاصلے پر جنوبی پنجاب میں واقع ہے۔ 2019ء کی مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی تقریباً 25 لاکھ ہے۔
بہاولپور کی اپنی پرانی تاریخ ہے۔ 1727ء میں صادق محمد خان اول عباسی نے بہاولپور کو فتح کیا۔ اس وقت اس کا دارالخلافہ ’’اللہ آباد‘‘ بنایا گیا…… جو لیاقت پور سے تقریباً 20 کلومیٹر کی دوری پر تھا۔ 1739ء میں صادق محمد خان اول عباسی کو نادر شاہ درانی نے نواب کا خطاب دیا۔ 1748ء میں اللہ آباد سے بہاولپور کو آباد کیا گیا اور 1774ء میں اللہ آباد سے بہاولپور کو دارالخلافہ بنا دیا گیا۔ 1867ء میں محکمۂ صحت اور ڈسپنسریاں بن گئیں۔ 1878ء میں دریائے ستلج پرڈیڑھ کلومیٹر ریل گاڑی کا پُل بنایا گیا۔ 1886ء میں ’’اسی ای کالج‘‘ کی بنیاد رکھی گئی۔ 1892ء میں ملکۂ وکٹوریہ کے اقتدار کی گولڈن جوبلی کے موقع پر یادگار کے لیے بہاولپور میں جوبلی اسپتال تعمیر کیا گیا۔ 1911ء میں پہلا ملٹری اسپتال یعنی ’’کمبائنڈ ملٹری اسپتال‘‘(CMH) بنا یا گیا۔ 1924ء میں نواب کی پنجم کی تعلیم مکمل ہونے پر وائسرائے نواب کو اختیارات تفویض کیے گئے۔
بہاولپور کی سب سے بڑی لائبریری ’’سنٹرل لائبریری ‘‘1924ء میں بنی۔ 1926ء میں یہاں ’’طیبہ کالج‘‘کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس اسپتال میں بہاولپور کے تمام طلبہ کے علاوہ لوگوں کو مفت ادویہ دی جاتی تھیں۔ 1928ء میں دریائے ستلج پر پُل بنا اور ساتھ ساتھ ’’ہیڈ سیلمانکی‘‘ ، ’’ہیڈ اسلام‘‘ اور ’’ہیڈ پنجند‘‘ کا قیام بھی عمل میں آیا۔ 1930ء میں وکٹوریہ اسپتال میں توسیع کی گئی۔ 1938ء میں یہاں پہلا ایکسرے ڈپارٹمنٹ بھی بن گیا۔
یوں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور 1925ء میں بنی۔ اس جامعہ کا پہلا نام ’’الصادق کالج‘‘ تھا۔ قائد اعظم 1927ء سے قیام پاکستان تک بہاولپور کے قانونی مشیر تھے۔
1935ء میں یہاں ’’جامع مسجد الصادق‘‘ کی بنیاد رکھی گئی…… جس میں مشہور شاعر غلام محمد گھو ٹوی رحلت تک نمازِ جمعہ ادا کرتے تھے۔
1943ء میں عزیز الرحمان نے پہلی بار خواجہ غلام فریدؒ کے کلام کا سرائیکی میں ترجمہ کر ڈالا جو سرکاری سطح پر چھپ گیا۔
ریاستِ بہاولپور 7 اکتوبر 1947ء کو پاکستان میں ضم کردی گئی۔ 1952ء کے بعد بہاولپور سے تعلق رکھنے والا جو بھی حج کے لیے جاتا، تو سرکاری ملازم ہونے کی صورت میں اسے تین مہینے کی پیشگی تنخواہ دی جاتی۔ نیز سعودی عرب میں اس کا قیام و طعام سرکارِ بہاولپور کے ذمے ہو تا۔
بہاولپور میں 1952ء میں ’’پیرا میڈیکل کالج‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ 1954ء میں 450 ایکڑ رقبہ پر مشتمل ’’صادق پبلک اسکول‘‘ بنایا گیا۔ اس کو ایشیا کا سب بڑا سکول ہو نے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
نواب بہاولپور کے دورِ حکومت سے 1960ء تک مرد حضرات کو ننگے سر باہر نکلنے کو شدید نا پسند کیا جاتا۔ اس وقت ترکی ٹوپی عام تھی۔19ویں صدی میں بہاولپور میں تیار ہونے والا ریشم اپنی انفرادیت کے حوالہ سے دنیا بھر میں مقبول رہا ہے۔ ’’گور نر ہاؤس لاہور‘‘، ’’کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور‘‘، ’’ایچی سن کالج لاہور‘‘ کی جامع مسجد، ہاسٹل اور جی اُو آر نواب صادق پنجم کی آباد کردہ عمارتیں ہیں۔ نواب صادق محمد خان اوّل نے جے سیل میر ریاست، بیکانیر کلہوڑوں سے آزاد کرواکراسے بہاولپور کا حصہ بنا دیا۔ نیز انہوں نے سندھ میں شکار پور، لاڑ کانہ، سیوستان اور حیدر آباد بھی سکھوں سے فتح کرکے حاصل کیا تھا۔
یہ وہ بہاولپور ہے جس کے نواب نے اسے پاکستان میں ضم کرکے پاکستان کی مالی امداد کی اور کل پاکستان کی پہلی تنخواہ ریاست بہاولپور نے ادا کی۔
ریاستِ بہاولپور کی رنگینیاں آج بھی قائم ہیں۔ یہاں کثیر تعداد میں طلبہ اسکولوں ، کالجوں اور جامعات میں پڑھتے ہیں ۔ یہاں کے لوگ محنتی اور جفا کش ہیں۔
بہاولپور کی اصل خوب صورتی اس کی قدیم عمارتوں میں پوشیدہ ہے۔ یہاں کی زمینیں قابلِ کاشت ہیں۔ کھلی سڑکیں، ہموار راستے اور سلیقے سے بنے گھر اس شہر کی خوب صورتی میں اضافہ کیے ہوئے ہیں۔ بے ہنگم ٹریفک کا مسئلہ یہاں بالکل نہیں۔ یہاں کے لوگ بھی اچھے ہیں۔
بہاولپور میں صفائی کا معیار دیکھنے کے قابل ہے۔ خاص کر یہاں کے تعلیمی ادارے قابل ِ دید ہیں۔ اللہ تعالا بہاولپور اور بہاولپور والوں کو پاکستان کی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے کے لیے ہمیشہ توانا رکھے، آمین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔