پورے پختونخوا میں عموماً اور سوات میں خصوصاً فیاض ظفر کے نام سے بیشتر لوگ آشنا ہیں۔ کیوں کہ وہ صرف ایک عام صحافی نہیں بلکہ صحافتی دنیا کا ایک درخشاں ستارہ ہے۔ وقت کے ہر روپ میں اُس کا قلم رواں دواں رہا۔ پابندیوں اور ظلم و جبر کے حبس میں وہ آزادی کی سانسوں کے لیے تڑپتا رہا۔ ہر جابر کے خلاف بولتا رہا۔ اندھیروں کے خلاف روشنیاں بکھیرتا رہا۔ تلواروں اور خنجروں کے آگے بھی امن کا جھنڈا لہراتا رہا۔ اپنے وقت کے نامعلوم سے ڈرا اور نہ وقت کے نقاب پوشوں سے گھبرایا۔ فیاض ظفر نے خوف اور ڈر کو پاؤں تلے روندا نہ کہ انہیں سر پر سوار کیا۔
اس بار ’’نوے ژوند‘‘ کے صدر جناب ریاض احمد حیران صاحب نے ریہب سنٹر رحیم آباد میں 12 نومبر کو نہ صرف فیاض ظفر کی خدمات کے اعتراف میں ایک تقریب کا اہتمام کیا بلکہ ان کی صحافتی جد و جہد کو خراجِ تحسین بھی پیش کیا۔ ایک عرصہ بعد سہی، چلو اتنا تو ہوا کہ کسی نہ کسی کو تو احساس ہوا کہ ظلم و جبر کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں حق اور سچ کی شمع جلانے کا سہرا کن لوگوں کے سر جاتا ہے؟
قارئین، اصل خبر تک رسائی کتنا مشکل کام ہے اور پھر اُس کو ہوا کے دوش پر پھیلانا اور لوگوں تک پہنچانا تو اُس سے بھی مشکل ہے۔ اس بارے میں ہر لمحہ آزمائش سے گزرنا پڑتا ہے۔ ریاض احمد حیران جیسے کمزور اور ناتواں بندے نے اتنے بڑے بڑے کارنامے سر انجام دیے ہیں کہ یقین نہیں آتا۔ واقعی حوصلہ اور ہمت کے آگے پہاڑ بھی سرنگوں ہوجاتے ہیں۔ یہ تو حقیقت ہے کہ پورے سوات میں ریاض احمد حیران کو یہ اعزاز حاصل رہا ہے کہ مشہور ادبی شخصیات اباسینؔ یوسف زئی سے لے کر محمد پرویش شاہین، بخت زادہ دانشؔ اور عبدالرحیم روغانےؔ (مرحوم) تک ڈھیر سارے شعرا و ادبا کے اعزاز میں تقاریب کا اہتمام کرکے بجا طور پر حقِ ادب ادا کر دیا ہے۔
اب کی بار فیاض ظفر جیسے منجھے ہوئے صحافی کی تقریب کا اہتمام کرکے انہوں نے صحافت کا حق بھی ادا کرنے کی سعی کی ہے۔ ریاض احمد حیران کے یہ ادبی کارنامے واقعی خراجِ تحسین کے قابل ہیں۔ ایسے پروگرام کو ترتیب دینا اور پھر کامیابی کے ساتھ منظم طریقے سے پیش کرنا کوئی معمولی کام نہیں۔
مذکورہ تقریب میں ہر جانب سے فیاض ظفر کی صحافتی جد و جہد کی تعریف کی جاتی رہی۔ ہر دوست، ہر آشنا اور ہر اہلِ قلم نے حقِ دوستی ادا کرنے کی کوشش کی۔ ایسا ہونا بھی چاہیے۔ ایسا خراجِ تحسین ہر ہیرو کو جیتے جی پیش کرنا چاہیے۔ ان کی خدمات کا اعتراف کرنا چاہیے۔
ایک قلم کا مجاہد، سچائی کا غازی اور کیا چاہتا ہے……! بس یہی کہ اُس کے اندھیروں کے سفر کو کبھی تو صبحِ روشن ملے اور ہر کوئی اُسے دیکھے اور سراہے……! ورنہ کتنوں نے چاند اور تاروں کی تمنا کی ہوگی…… لیکن اُن کو گھٹا ٹوپ اندھیروں کے سوا کچھ نہ ملا ہوگا۔ بقول شاعر
میں نے چاند اور ستاروں کی تمنا کی تھی
مجھ کو راتوں کی سیاہی کے سوا کچھ نہ ملا
مَیں اس موقع پر مبارک باد دیتا ہوں ریاض احمد حیران اور اُس کی تنظیم ’’نوے ژوند‘‘ کے تمام محنتی ساتھیوں کو۔ مَیں سراہتا ہوں ’’سوات پختو ادبی کلتوری نڑیوالہ جرگہ‘‘ کی کوششوں کو اور دوسرے تمام شاملِ حال دوستوں اور ساتھیوں کی پُرخلوص محنت کو جنہوں نے اتنا شان دار اور تاریخی پروگرام ’’د ایلم ستورے‘‘ کا اہتمام کیا۔ دوستوں، صحافیوں، شاعروں، ادیبوں، پروفیسروں، طلبہ اور خواتین کو مدعو کیا۔ سب کو عزت و احترام سے نوازا اور توصیفی اسناد اور شیلڈ دیے۔
پروگرام میں ہر جانب شعر و ادب کے ستارے جگمگ جگمگ کرتے رہے۔ خوب صورت باتوں، جملوں اور مسکراہٹوں کے تبادلے ہوتے رہے۔ گویا آسمان سے محبتوں، برکتوں کی پھوار برستی رہی۔ ہر کوئی اپنی جگہ پر موزوں لگتا تھا اور اپنے حصے کا کردار بہ حسن و خوبی ادا کرتا رہا۔ اگر صدارت کے تختِ زریں پر سوات کے شعر و ادب کے بادشاہ حنیف قیس صاحب رونق افروز تھے، تو سٹیج کی نظامت کے فرائض سحر البیاں شاعر جناب علی خان اُمید حاضرین کے لہو کو گرماتے رہے جب کہ فیاض ظفر کے دائیں بائیں اُس کے ہمدمِ دیرینہ روزنامہ ڈان سے وابستہ سنجیدہ صحافی، تجزیہ نگار اور ادیب فضل خالق صاحب، روزنامہ آزادی کے ادارتی صفحہ کے مدیر امجد علی سحابؔ، مشرق ٹی وی اور نئی بات کے بیورو چیف محترم نیاز احمد خان، الیکٹرونک میڈیا کے صدر صحافی سعید الرحمان صاحب، وائس آف جرمنی کے عدنان باچا، کیمرہ مینوں میں سعید اقبال، لونگین خان اور جواد جگنوؤں کی طرح جگمگاتے رہے۔
فیض علی خان فیض ایڈووکیٹ نے اپنے تاثرات اور نظم سنا کر سامعین سے داد وصول کی جب کہ ندیم چراغؔ نے اپنی خوب صورت اور میٹھی آواز سے حاضرین پر سحر طاری کیا اور خوب داد وصول کی۔ سمندر خان سواتی نے اپنی نظم اور گیت سے سننے والوں کو محظوظ کیا۔ کیڈٹ کالج کے ڈاکٹر طاہر بوستان خیل نے ایک بھرپور اور پُرمغز مقالہ میں فیاض ظفر صاحب کی پوری ذاتی زندگی اور صحافتی جد و جہد کا احاطہ کیا۔ جس کے مطابق فیاض ظفر 1977ء میں سیدو میں پیدا ہوئے۔ 1996ء سے روزنامہ بشارت سے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز کیا۔ پھر کچھ عرصہ کے بعد روزنامہ شمال (سوات) کے نیوز ایڈیٹر بنے۔ ’’دی نیوز نیٹ ورک انٹرنیشنل نیوز ایجنسی‘‘ سوات کے واحد نمائندہ رہے۔ 2000ء میں ڈیلی ایکسپریس کے پہلے انچارج بنے۔ پہلے ایڈیٹر، سرکولیشن منیجر بھی رہے۔ وہ تاحال ملاکنڈ میں روزنامہ مشرق کے بیورو چیف ہیں۔ زما سوات ڈاٹ کام کے اولین اور باخبر سوات ڈاٹ کام کے تاحال ایڈیٹر اِن چیف ہیں۔ ان ویب سائٹس کے علاوہ مارننگ پوسٹ اور لفظونہ ڈاٹ کام پر ان کی نگارشات چھپتی رہتی ہیں۔ ان کا سب سے بڑا حوالہ وائس آف امریکہ (ڈیوہ ریڈیو) کی رپورٹنگ ہے، جس کے ساتھ وہ ایک عرصہ سے وابستہ ہیں۔
فیاض ظفر صاحب اچھا کالم بھی لکھتے ہیں۔ انہوں نے سوات کے غریب و مجبور باشندوں کی سوات سے مہاجرت کی جو داستان قلم بند کی تھی، اُس کا جواب نہیں۔ مَیں نے جب وہ کالم پڑھا تھا، تو میری اُس وقت آنکھیں ڈبڈبا گئی تھیں۔ ان پر ایک توصیفی کالم لکھ کر ہی میرے مَن کو سکون ملا۔
فیاض ظفر صاحب بیرونی ممالک میں بھی جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ 24 ممالک کا سفر کرچکے ہیں۔ اس میں سرکاری و غیر سرکاری دورے اور مطالعاتی دورے بھی شامل ہیں۔ منکسرالمزاج ہیں، بااخلاق ہیں۔ صحافتی علم پھیلانے میں حاتم طائی واقع ہوئے ہیں۔ وہ کئی شاگردوں کے اُستاد ہیں۔ جو اَب صحافت، رپورٹنگ اور تجزیے کرتے رہتے ہیں۔
قارئین، پروگرام میں پیش کیا جانے والا ڈاکٹر طاہر بوستان خیل کا مقالہ معلومات کا خزانہ تھا۔ اس تحریر کے لیے مذکورہ مقالہ سے مواد حاصل کیا گیا ہے۔
اس شان دار تقریب میں ڈھیر سارے عام مہمانوں کے علاوہ موسیٰ خان عکاس، جاوید سواتی، عادل سدا بہار، حسن خان، فضل غفار دلسوز، منگلور کی جانی پہچانی شخصیت سید احمد خان، شہنشاہِ قطعہ سراج الدین سراجؔ، میاں ظفر جان، سوات ادبی سانگہ کے صدر فضل محمود روخانؔ، سوات ادبی ملگری کے جنرل سیکرٹری سمیع اللہ گرانؔ اور ادیب و شاعر محترم روزی خان بابا لیونےؔ اور سوات پختو ادبی کلتوری نڑیوالہ جرگے کے چیئرمین بخت زر دریابؔ بھی شامل تھے۔ ان میں ڈھیر سارے حضرات نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے فیاض ظفر صاحب کو خراجِ تحسین پیش کیا۔
اس کے علاوہ سوات کے مشہور فنکار شاہد خان شاہد نے فیاض ظفر کی ایک غزل پر ’’لِپ سنگنگ‘‘ کرکے میلہ لوٹ لیا۔ انہوں نے اور بھی مختلف غزلیں اور نظمیں گاکر اپنی خوبصورت اور میٹھی آواز سے سامعین کو محظوظ کیا۔
دوپہر 2 بجے سے شروع ہونے والا یہ پروگرام شام تقریباً 5 بجے اختتام پذیر ہوا۔ آخر میں تمام مہمانوں کی پُرتکلف چائے سے تواضع کی گئی۔ اس شان دار پروگرام کے تمام منتظمین مبارک باد کے مستحق ہیں۔
اللہ تعالا سے دعا ہے کہ ریاض احمد حیران اور ’’نوے ژوند‘‘ کے تمام ساتھی اپنی قابلِ قدر ادبی روایات کو زندہ رکھنے کے لیے ہمیشہ تر و تازہ، زندہ اور پائندہ رہیں۔ اللہ تعالا ہم سب کا حامی و ناصر ہو، آمین!
…………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔