مثل مشہور ہے: ’’مُچھ نییں تے کچھ نییں‘‘ جب کہ بابا جی کہتے ہیں: ’’کردار نہیں تو کچھ نہیں۔‘‘
ایک دفعہ اپنے معتقدین سے کہنے لگے کہ کردار ہو، تو مرحوم ’’پرنس میاں گل اورنگزیب‘‘ (آخری ولیِ عہد ریاستِ سوات) جیسا۔
قارئینِ کرام! مرحوم کے بارے میں ہمیشہ عجیب قسم کے لطائف سنتا چلا آرہا تھا۔ اس لیے بابا جی کا ان کے حق میں ایسے کلمات ادا کرنا عجیب سا لگا۔
باباجی کے بقول: ’’ایک دفعہ سینیٹ کے انتخابات کے موقعہ پر (مرحوم) نواب اکبر بگٹی نے (مرحوم) میاں گل اورنگزیب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ’’پرنس! وعدہ کیجیے کہ ووٹ مجھے ہی دیں گے۔‘‘ میاں گل اورنگزیب نے جواباً کہا: ’’جو آپ کی مرضی۔‘‘ اس کے بعد کچھ لوگ ہاتھ دھو کر نواب صاحب کے پیچھے پڑگئے کہ آپ نہ لڑیں اور یہ کہ ہمارے منتخب شدہ امیدوار کے حق میں ووٹ ڈالیے۔ نواب صاحب نے مجبوراً ایسا ہی کیا۔ انتخابات اپنے منطقی انجام کو پہنچے۔ جب ووٹوں کی گنتی کی گئی، تو ان میں سے ایک ووٹ نواب صاحب کے نام نکل آیا۔ ہال قہقہوں سے گونجنے لگا۔ ساتھ یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ اُن حضرت کا نام لیا جائے، جنہوں نے ایک ایسے شخص کو ووٹ دیا جو سرے سے انتخاب لڑنے کا امیدوار نہیں تھا۔ اکبر بگٹی کھڑے ہوگئے اور ہال کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’’خواتین و حضرات، آپ کو ہر گز مذاق اڑانے کی ضرورت نہیں۔ میرے حق میں ووٹ ڈالنے والا کوئی للو پنجو نہیں بلکہ ایک باکردار شخصیت ہیں۔‘‘
بابا جی آگے کہتے ہیں: ’’اس کے بعد نواب اکبر بگٹی ہال میں لمبے لمبے ڈگ بھرتے میاں گل اورنگزیب کے قریب آئے اور انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’’پرنس، کیا آپ کو پتا نہیں تھا کہ مَیں کسی اور کے حق میں دست بردار ہوگیا تھا۔‘‘ میاں گل اورنگزیب نے اپنی نشست سے احتراماً اُٹھتے ہوئے کہا: ’’نواب صاحب، ہم نے تو آپ کو زبان دی تھی۔ آپ نے دست بردار ہونے کا فیصلہ تو کیا لیکن ہمیں آگاہ کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ اب ہم کیا کرتے۔ زبان سے پھر نہیں سکتے تھے، اس لیے ووٹ آپ ہی کے حق میں استعمال کیا۔‘‘
بابا جی کے بقول: ’’نواب اکبر بگٹی نے میاں گل اورنگزیب کو گرم جوشی سے گلے لگایا اور اس کی پیٹھ ٹھونکتے ہوئے کہا کہ پرنس، ہم آپ کے مقروض ہوگئے۔ زندگی نے وفا کی، تو آپ کا یہ قرض ضرور اتاریں گے۔‘‘
کہتے ہیں کہ کچھ عرصہ بعد جب میاں محمد نواز شریف نے میاں گل اورنگزیب کو بلوچستان کا گورنر بنانا چاہا، تو نواب اکبر بگٹی کو ٹیلی فون کے ذریعے اس حوالہ سے آگاہ کیا۔ نواب صاحب نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا۔ جیسے ہی میاں گل اورنگزیب نے گورنر کی حیثیت سے بلوچستان کا چارج سنبھالا، تو نواب صاحب نے گورنر ہاؤس جاکر ان کو خوش آمدید کہا۔ اور ان کا قرض چکاتے ہوئے کہا: ’’پرنس، آپ کو ہماری طرف سے کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔‘‘
پھر دنیا نے دیکھا کہ ایک باکردار انسان (نواب اکبر بگٹی) کی طرف سے دوسرے باکردار انسان (میاں گل اورنگزیب) کو واقعی اس دورانیہ میں تکلیف نہیں ہوئی۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایک دفعہ آستانے پر بابا جی کے منھ سے میاں گل اورنگزیب کی پابندیِ وقت بارے بھی سنا تھا۔ بابا جی کے بقول: ’’ایک دفعہ مجھے میاں گل اورنگزیب نے شادی کی تقریب پر مدعو کیا۔ چھوٹتے ہی کہا کہ تم کس وقت پہنچوگے؟ اور مجھے کیسے پتا چلے گا کہ تم واقعی آئے ہو؟ بابا جی کہتے ہیں کہ مَیں نے انہیں جواباً کہا، بارہ بجے۔ دوسرے ہی لمحے میاں گل اورنگزیب نے اپنا موبائل فون نکالا اورمخصوص تاریخ اور وقت پر الارم سیٹ کیا۔ ساتھ ہی بابا جی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’’فُلاں تاریخ کو 12 بجے ملاقات ہوگی۔‘‘
بابا جی کہتے ہیں کہ اس روز وقتِ مقررہ پر ہم وہاں پہنچے۔ جیسے ہی بارہ بج گئے، تو میاں گل اورنگزیب کے فون پر الارم کی گھنٹی بجنا شروع ہوئی۔ انہوں نے جیسے ہی فون نکالا اور سکرین پر نظر ڈالی، تو مَیں نے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہوئے السلام علیکم کہا۔ انہوں نے گرمجوشی سے مصافحہ کیا اور کہا: ’’بھئی، تم مصروف بندے ہو، چاہو تو ظہرانہ کرکے جاؤ (جو ایک طرح سے تقریب کا حصہ تھا)، چاہو تو ابھی کے ابھی جاسکتے ہو۔ عزت افزائی کے لیے ممنون ہوں۔‘‘
ایک اور واقعہ ان کی پابندیِ وقت کے حوالہ سے بابا جی یوں بیان کرتے ہیں: ’’ایک دفعہ میاں گل اورنگزیب نے غریب خانے پر حاضری دینے کا کہا۔ مَیں نے انہیں وقت دیا (فرض کریں، وقت دو بجے تھا، راقم) انہوں نے حسبِ روایت فون نکالا اور 2 بجے الارم کی گھنٹی سیٹ کی۔ مقررہ تاریخ کو میاں گل اورنگزیب پانچ منٹ پہلے آستانے پر پہنچے۔ گاڑی سے اُترے اور دروازے پر ہی کھڑے رہے۔ کسی نے انہیں اندر جانے کا کہا، تو جواباً کہنے لگے: ’’وقتِ مقررہ پر ہی حاضری دیں گے۔ اس سے ایک لمحہ پہلے اندر نہیں جائیں گے۔ ہم نہیں چاہتے کہ ہماری وجہ سے کے کاموں میں خلل پڑے۔‘‘
قارئینِ کرام! میاں گل اورنگزیب 28 مئی 1928ء کو پیدا ہوئے تھے۔ والیِ سوات میاں گل جہانزیب کے بیٹے اور جنرل ایوب خان کے داماد تھے۔ سابقہ گورنر صوبہ سرحد (اب خیبر پختونخوا) اور بلوچستان تھے۔ سیاست سے پہلے پاکستان آرمی میں بھی خدمات انجام دے چکے تھے۔ 3 اگست 2014ء کو انتقال کرگئے۔
………………………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔