’’نیو امپیریل ازم‘‘ سے مراد یہ ہے کہ اب سامراجی طاقتیں براہِ راست ملکوں پر قبضہ اور حکومت کرنے کے بجائے اپنے معاشی مفادات کو اپنے قائم کردہ نئے ادارے جیسے ’’آئی ایم ایف‘‘ اور ’’ورلڈ بینک‘‘ کے ذریعے حاصل کرتے ہیں۔ تیسری دنیا کے ملکوں کو قرض دیا جاتاہے اور پھر اس کی وصولی کے لیے ان ملکوں کے داخلی معاملات میں حصہ لے کر اپنے مفادات سے ہم آہنگ پالیسیاں بنوائی جاتی ہیں۔
’’کلاسیکل امپیریل ازم‘‘ میں طاقتوں کی موجودگی نظر آتی تھی، اس لیے ان کی مزاحمت بھی ہوتی تھی لیکن اب یہ مداخلت خاموش اور چھپی ہوئی ہوتی ہے۔ اس لیے مزاحمت اگر ہوتی بھی ہے، تو مقامی حکومتوں کے خلاف، جو قرضوں کی ادائیگی کی خاطر نئے ٹیکس لگاتی ہیں اور نجکاری کے ذریعے ریاستی اداروں کو فروخت کردیتی ہیں۔
(’’تاریخ کی خوشبو‘‘ از ’’ڈاکٹر مبارک علی‘‘، پبلشرز ’’تاریخ پبلی کیشنز‘‘، پہلی اشاعت، 2019ء، صفحہ نمبر 52سے انتخاب)