موجودہ دور سہولیات کا دور ہے۔ انسان مادی ترقی کے بامِ عروج تک پہنچ چکا ہے۔ زندگی کے ہر پہلو میں اس قدر آسانیاں آگئی ہیں کہ انسان دنگ رہ جاتا ہے، اور سوچنے لگتا ہے کہ شائد یہی زندگی کا سب سے ترقی یافتہ دورانیہ ہے۔
مگر بیش بہا سہولیات کے باوجود انسان کی روحانیت زخمی ہے۔ زبردست مادی سہولیات کے ہوتے ہوئے بھی آج کا انسان دلی سکون سے محروم ہے۔
قارئین، مَیں ذاتی طور پر روایات پسند بندہ ہوں اور اپنی قدیم اور عظیم روایات کو یاد کرنے سے مجھے روحانی تسکین سی ملتی ہے۔ اس لیے میرا آج کا موضوع ہتھ چکی جسے پشتو میں ’’میچن‘‘ اور انگریزی میں "Grinder” کہتے ہیں۔ ایک ایسی قدیم مشین تھی، جو ہر گھر کی زینت اور ضرورت تھی۔
جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا کہ اس مشین کو پشتو میں ’’میچن‘‘ کہا جاتا تھا۔ اب یہوقت کے ساتھ ساتھ متروک ہوچکی ہے، مگر اس سے جڑی یادیں اب تک زندہ ہیں۔
پشتو ادب اور شعر و شاعری میں میچن کا ذکر بارہا ملتا ہے، جیسے یہ مشہور پشتو ٹپہ ملاحظہ ہو:
نیستی پیغور نہ دے جانانہ
زہ پہ چرگ بانگ میچنہ ستا د پارہ کڑمہ
’’میچن‘‘ کا دور ہماری معاشرت میں 80 اور 90ء کی دہائی تک دیہی اور دوردراز علاقوں میں چلتا رہا۔ بجلی نظام کے دور دراز علاقوں تک پھیلانے کے بعد اور بجلی سے چلنے والی چکیوں کی آمد کے بعد اگرچہ زمانۂ قدیم سے چلنے والی یہ مشین اب رک گئی ہے، مگر شائد دور دراز پہاڑی علاقوں میں جہاں مواصلات کا نظام اچھا ہے اور نہ بجلی کا ، وہاں اب بھی ایسی ہتھ چکیاں موجود ہوں۔
اگرچہ آج سے کچھ عشرے پہلے تک مشترکہ خاندانی نظام مضبوط تھا، لیکن پھر بھی آبادی اتنی نہیں ہوتی تھی۔ گھر میں کم ہی لوگ ہوتے تھے۔ گھر کی عورتیں جہاں دیگر گھریلو کام تن دہی سے کرتیں، وہاں ’’میچن‘‘ سے گندم اور مکئی پیسنے کی ذمہ داریاں بھی نبھاتیں۔
عموماً دستور یہ ہوتا کہ اذان سے پہلے یا اذان کے ساتھ گھر کی خواتین جاگ جاتیں اور باری باری ’’میچن‘‘ کے ذریعے آٹا تیار کرتیں۔ بعد میں دیگر گھریلو کام نمٹاتیں۔ یوں دن کو گھر کے افراد کے لیے تازہ آٹا دستیاب ہوتا۔
یہ واقعی ایک مشکل کام تھا، لیکن خواتین اس کی عادی تھیں۔ ان کے لیے سب سے بڑا امتحان شادی بیاہ کے موقعوں پر ہوتا، جب سیکڑوں لوگوں کے کھانے کے لیے آٹے کا بندوبست کرنا پڑتا۔
عمر رسیدہ خواتین سے سنا ہے کہ جب گاؤں میں شادی بیاہ کا پروگرام ہوتا، تو پورے گاؤں کی خواتین ایک دوسرے کا ہاتھ بٹاتیں اور مہینا پہلے آٹا کی تیاری شروع ہو جاتی۔ گاؤں کی تمام خواتین شادی والے گھر کی خواتین کی مدد کرتیں۔ گاوں کی خواتین ایک ساتھ جمع ہوتیں۔ باری باری چکی چلاتیں۔ ٹپے گاتیں۔ یوں اجتماعیت کا عملی مظاہرہ کرتیں۔
قارئین، نوے کے آخر تک ہمارے گھر میں بھی ایسی ہی ایک چکی موجود رہی۔ گھر میں ایک پرانا کچا کمرہ تھا، جو کافی لمبا تھا۔ اس میں ہماری چکی پڑی رہتی۔ 90ء کے آخر تک کبھی کبھار اس کا استعمال ہو جاتا۔ بالخصوص جب گھر والوں سے ہم کھیر کی فرمائش کرتے، تو وہ چاول پسواتے اور میری کھیر کی فرمائش پوری کرتے۔ آج جب یہ تصویر سامنے سے گزری تو مجھے پرانے زمانہ نے اپنی آغوش میں لے لیا۔ پرانی یادیں میری آنکھوں کے سامنے ناچنے لگیں۔ اس موقع پر سوچا اور کچھ تو ہو نہیں سکتا، کیوں نہ لکھ کر دل کی بھڑاس ہی نکال لی جائے!
جب بھی عمر رسیدہ خواتین سے ملا، وہ یہی شکوہ کرتیں کہ آج کی خواتین بہت سست اور کاہل ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ پرانے لوگ سخت جان تھے۔ اس کی وجہ ان کا سادہ پن اور مشقت بھرا طرزِ زندگی تھی۔ آج مرد ہو یا عورت، سستی اور ناتوانی کی شکار ہیں۔ دونوں صنف جلدی بوڑھے ہو رہے ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں، لیکن سب سے بڑی وجہ ہماری سست اور مشقت بے زار طرزِ زندگی ہے جس نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔
’’میچن‘‘ ایک عظیم دور کی کڑی تھا اور اب ہم کسی اور زمانے میں غوطہ زن ہیں۔ ایک ایسے زمانے میں جہاں سہولیات، مادی اور سائنسی ترقی کی انتہا ہے، مگر روحانیت نہیں۔ فطری سادگی نہیں۔ دلوں کا اخلاص نہیں۔ دلی محبت نہیں۔ صرف منافقت، ڈپلومیسی، زبانی جمع خرچ والا پیار اور دھوکا ہے اور بس! اس ٹپہ کے ساتھ اجازت چاہوں گا کہ
ارمان ارمان تیر شویہ وختہ
بیا بہ را نشے کہ ملنگ درپسی شمہ
…………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔