اُردو لغت نویسی کا دوسرا مرحلہ وہ مختصر منظوم لغات تھیں جو نصابی ضروریات کے لیے تخلیق ہوئیں۔ ایسی منظوم لغت ’’نصاب‘‘ کہلاتی ہے۔ نصاب کے طور پر تخلیق کی گئی یہ منظوم لغات یا نصاب نامے، جن کا آغاز شیرانی کے خیال کے مطابق دورِ جہانگیری سے ہوتا ہے، اردو اور فارسی کی آمیزش کی ایک صورت ہیں۔ ان میں اُردو الفاظ کے فارسی اور عربی مترادفات نظم کیے گئے ہیں۔ یہ فرہنگیں تعلیمی نصاب کے طور پر لکھی گئیں اور عام طور پر دو سو اشعار تک محدود ہوتی تھیں۔ کیوں کہ کسی زمانے میں دو سو درہم وہ رقم تھی جس پر ایک سال گزرنے پر زکوٰۃ واجب ہوتی تھی۔ گویا وہ اس زمانے کا زکوٰۃ کا ’’نصاب‘‘ تھا۔
فارسی نصاب ناموں کے باوا آدم ابو نصر فراہی نے اپنی مشہور تصنیف نصاب البیان (617ھ یعنی 1212ء) کا نام اسی مناسبت سے رکھا اور بعد میں ایسی کتابوں کا نام ہی نصاب نامہ پڑگیا۔ اکثر محققین کے خیال کے مطابق برعظیم پاک و ہند میں لکھے گئے نصاب ناموں کا مقصد بچوں کو اُردو کے ذریعے عربی اور فارسی الفاظ کی تعلیم دینا تھا۔
لیکن ڈاکٹر مسعود ہاشمی کا خیال ہے کہ ان کا ایک اور مقصد بھی تھا اور وہ تھا اُردو (یا ہندی) کے الفاظ کی تعلیم۔
نصاب ناموں کے سلسلے میں ایک بحث یہ بھی ہے کہ ’’خالق باری‘‘ امیر خسرو کی تصنیف ہے یا جہانگیری دور کے کسی اور خسرو نامی شخص سے اس کو منسوب کیا جاسکتا ہے۔
(ڈاکٹر رؤف پاریکھ کی تصنیف ’’لغوی مباحث‘‘ ، ناشر ’’ڈاکٹر تحسین فاروقی، ناظمِ مجلسِ ترقیِ ادب، لاہور‘‘، طبعِ اول، جون 2015ء کے صفحہ نمبر 13 اور 14 سے انتخاب)