سیدوشریف بازار میں چائے کا ایک چھوٹا سا ہوٹل تھا۔ اس کی چائے بہت مشہور تھی۔ اسے چلانے والا محمود نامی ایک شخص تھا جو اس کاروبار کے علاوہ ریاست کے رائیل بگلرز میں ملازم بھی تھا۔ ہم کچھ دوست اس چائے خانہ میں مستقل طور پر شام کو بیٹھتے اور دنیا جہاں کی افواہیں زیر بحث لاتے۔ ایک دوسرے کے ساتھ ہماری پہچان برسوں پر محیط تھی۔ محمود ماما بھی ہمارا بہت خیال رکھتے تھے۔
ایک شام حسب معمول مَیں، عبدالقیوم اور خلیفہ تینوں ساتھی یہاں بیٹھ کر چائے پی رہے تھے کہ دو غیر ملکی نوجوان ہوٹل میں داخل ہوئے۔ وہ ہمارے سامنے والی بنچ پر بیٹھ گئے اور چائے کا آرڈر دے دیا۔ وہ دونوں آپس میں ایک ایسی بولی بول رہے تھے جو ہم نے پہلے کبھی نہیں سنی تھی۔ اس میں ایک نغمگی اور ریشم کی طرح نرمی محسوس ہو رہی تھی۔ چائے پینے کے بعد اُن دونوں میں جو نوجوان عمر میں بڑا لگتا تھا۔ اُٹھ کر ہمارے پاس آیا اور ہم سے پوچھا کیا تم انگریزی سمجھتے ہو؟ میں نے اثبات میں سر ہلایا، تو وہ میرے ساتھ بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ وہ دونوں دوست فرانس سے آئے ہیں اور یہاں سوات ہوٹل میں ٹھہرے ہیں۔ دراصل وہ ایک ایسی ڈاکومنٹری فلم بنارہے ہیں جو ان علاقوں کے بارے میں ہے جہاں سے سکندراعظم اپنی جنگی مہمات کے سلسلہ میں گزرے تھے۔ اس فلم کے لیے وہ ان علاقوں کی لوک موسیقی ریکارڈ کروانا چاہتے ہیں اور کیا ہم اس بارے میں کچھ مدد کریں گے؟ میں نے یہ باتیں اپنے دونوں دوستوں کو دہرائیں۔ ایک نے کہا کہ میں اپنے سرکاری بنگلہ میں اس پروگرام کو رکھوں اور مقامی فن کار وہ لائیں گے۔ میں نے معذرت کی کہ میرے والد صاحب کبھی بھی ان لغویات کی اجازت نہیں دیں گے۔ آخر کافی بحث کے بعد خلیفہ نے رضامندی ظاہر کی کہ وہ اپنی بیٹھک میں یہ پروگرام کروائیں گے۔ ساتھ ہی یہ شرط بھی رکھی کہ ہم سب بشمول ان دونوں فرانسیسیوں کے رات کا کھانا بھی اُن کے ہاں کھائیں گے۔ دونوں مہمان حیرت اور خوشی کے ملے جلے جذبات کا اظہار کرنے لگے اور اگلی شام کو اپنی پوری ریکارڈنگ سسٹم کے ساتھ آگئے۔ کھانے سے پہلے انھوں نے وہ سسٹم سٹ کر دیا۔ خلیفہ نے نہ صرف یہ کیا کہ مقامی بانسری نواز بختیار اور دف بجانے والے شاہ زر کو بلایا تھا بلکہ منگورہ کے ایک مشہور رباب بجانے والے کو بھی مدعو کیا تھا۔ کھانا بھی نہایت پُرتکلف اور خالص سواتی ڈشوں پر مشتمل تھا۔ غیر ملکی مہمانوں نے بڑے شوق سے کھانا کھایا۔ کھانے کے بعد پروگرام شروع ہوا، تو معلوم ہوا کہ یہ دونوں نہ صرف اچھے ساؤنڈ ریکارڈسٹ ہیں بلکہ موسیقی ترتیب دینے میں بھی تجربہ کار ہیں۔ جب دَف اور بانسری کی آواز بیٹھک سے باہر نکلی تو چند دوسرے لڑکے بھی اندر آگئے۔ ان میں ایک لڑکا نسبتاً کم عمر فرانسیسی کے قریب بیٹھا اور اس کے ساتھ ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں بات کرنے لگا اور اس کو بار بار کہتا رہا کہ تم میرے دوست ہو۔ تم میرے بھائی ہو۔ وہ بے چارہ نہایت تحمل سے یہ برداشت کرتا رہا۔ پروگرام رات دو بجے تک چلتا رہا۔ میں نے والد صاحب کو سب کچھ بتا کر ان سے دیر سے گھر آنے کی اجازت لی تھی۔ ویسے اس زمانہ میں چوری چکاری یا راہزنی کا تصور بھی نہیں تھا، میں جب افسر آباد میں اپنی سرکاری بنگلہ اے بی 2 پہنچا تو دروازہ حسب توقع کھلا تھا اور میں خاموشی سے اپنے کمرہ میں جا کر سو گیا۔ خلیفہ کے ہاں سے رخصت کے وقت ان مہمانوں نے ہم سب سے وعدہ لیا کہ اگلے دن ہم سب شام کو سوات ہوٹل میں اُن کے ساتھ ڈنر پر مہمان ہوں گے۔ کم عمر والے نوجوان نے، جس کا نام گوئین تھا، خصوصی طورپر تاکید کی تھی کہ اُس بے ہودہ لڑکے کو ساتھ مت لانا۔ میں نے خلیفہ اور عبدالقیوم کو سمجھا دیا کہ اس شخص کو مت لے جانا یہ ہماری بدنامی کا باعث بنے گا۔ ان غیر ملکیوں پر ہمارا بہت اچھا امپریشن پڑا ہے اور اگر یہ وہاں پر اُلٹی سیدھی حرکت کرے گا تو ہماری ساری محنت اکارت جائے گی۔

خلیفہ کے ہاں سے رخصت کے وقت ان مہمانوں نے ہم سب سے وعدہ لیا کہ اگلے دن ہم سب شام کو سوات ہوٹل میں اُن کے ساتھ ڈنر پر مہمان ہوں گے۔

بدقسمتی سے اُس دن میری کچھ ایسی مصروفیات آڑے آگئیں کہ میں ان کے ساتھ نہ جاسکا۔ اگلی شام جب میں خلیفہ اور عبدالقیوم محمود ماما کے ہوٹل میں معمول کے مطابق اکٹھے ہوگئے تو عبدالقیوم نے مجھے آڑے ہاتھوں لیا کہ تم نے ہمیں کس مصیبت میں ڈال دیا تھا۔ اس نے بتایا کہ وہ اور خلیفہ جب شام کو سوات ہوٹل جانے کے لیے نکلے، تو وہی بدتمیز لڑکا ان کے ساتھ ہولیا۔ عبدالقیوم نے اس کو بتایا کہ وہ پروگرام تبدیل ہوگیا ہے اور بعد میں کسی روز پر طے کیا جائے گا۔ خلیفہ اور قیوم ایک دوسرے طرف سے جب سوات ہوٹل پہنچے تو دیکھا کہ وہ لڑکا پورچ میں ان فرانسیسیوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ یہ دونوں بھی مجبوراً آگے آئے اور علیک سلیک کے بعد لاؤنچ میں آکر بیٹھ گئے۔ ڈرنکس آگئے تو وہ ندیدوں کی طرح نیٹ وہسکی پینے لگا۔ عبدالقیوم نے اسے بار بار ٹھوکا اور کہا کہ اپنی اوقات میں رہو۔ ایسا نہ ہو کہ یہاں لاؤنچ میں ہی لمبے لمبے لیٹ جاؤ۔ غیر ملکی میزبانوں نے جب دیکھا کہ صورتحال بگڑ رہی ہے تو ان سب کو ساتھ لے کر کمرہ میں آگئے اور روم سروس کو فون کرکے کھانا وہیں پر بلوایا۔ کھانے کے بعد جب یہ لوگ رخصت ہونے لگے، تو اس بے شرم نے موسیو گوئین سے کہا کہ آپ چوں کہ میرے دوست ہیں اس لیے مجھے اپنی گھڑی تحفہ کے طور پر دے دیں۔ وہ بے چارا ہکا بکا رہ گیا۔ عبدالقیوم اور خلیفہ نے اس بے حیا کو لاکھ سمجھایا کہ دیکھو اس حرکت سے ہمارے سوات کی بدنامی ہو رہی ہے اور ہماری اتنی محنت ضائع مت کرنا۔ وہ بے وقوف باز نہ آیا اور اس بے چارے کو گھڑی دینا پڑی کہ چلو اس مصیبت سے گلو خلاصی تو ہوجائے گی۔ مجھے بہت دکھ ہوا کہ یہ کیسے انسان ہیں۔ میں شام کو اُن کے پاس گیا اور اُن سے معذرت کی اور درخواست کی کہ ہمارے بارے میں کوئی غلط رائے مت قائم کریں۔ انھوں نے بہ یک زبان ہمارا شکریہ ادا کیا اور ساتھ ہی ہنس کر کہا کہ کالی بھیڑ تو ہر جگہ ہوتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(نوٹ:۔ لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والے بحث و مباحثہ سے متفق ہونا ضروری نہیں)