مرحوم فضل الرحمان فیضانؔ 1926ء میں تحصیلِ چارباغ کے گاؤں ’’عالم گنج ‘‘ میں مرحوم عبدالرحمان کے ہاں پیدا ہوئے۔ 15 سال کی عمر میں اپنا گھر بار چھوڑا اورمردان کے گاؤں ـ’’جمال گڑھ‘‘ میں دینی علوم کے حصول کی خاطر علمائے کرام کی شاگردی اختیار کی۔ دورانِ طالب علمی آپ نے اُن علما کی بدولت فارسی اور عربی زبانوں پر بھی عبور حاصل کیا۔ زمانۂ طالب علمی میں آپ مختلف علاقوں میں علما کی نگرانی میں رہے۔ علم کے حصول کے ساتھ ساتھ مذکورہ اساتذۂ کرام سے روحانی علاج کے لیے تعویذات اور نقوش کے اجازت نامے بھی حاصل کیے۔ بعد میں تمام تعویذات کو ’’گلزارِ تعویذات ‘‘ کے نام سے شائع کیا۔
تعلیم کے حصول کی خاطر زیادہ وقت مردان میں ’’جمال گڑھ‘‘ میں گزارا۔ اس کے علاوہ 1940ء کو نوشہرہ میں ’’پبو، چوکی، درب‘‘ میں فنِ خطاطی کے استاد شاہ افضل کی شاگردی بھی اختیار کی۔ 1942ء میں فنِ خطاطی کے ایک اور استاد ’’سید راحت اللہ راحتؔ زاخیلی‘‘کی بھی شاگردی کی۔ اِن باکمال اساتذہ کا ہنر یوں فیضانؔ صاحب تک منتقل ہوگیا۔
1945ء میں ’’افغان‘‘ (اخبار) میں بطورِ کاتب اپنی خدمات انجام دینے لگے۔ اس کے علاوہ دوسرے اخبارات کے ساتھ بطورِ کاتب منسلک رہے۔ 1949ء تک اخبارات کی کتابت کی۔
فیضانؔ صاحب کاتبوں کی بیٹھک میں رہتے ہوئے بھی اپنے شعرادوستوں کو نہیں بھولے۔ وہ کام کے ساتھ ساتھ اپنے دوستوں کے کلام کی کتابت بھی کیا کرتے۔ اُن کے صاحب زادے ’’ شمس الرحمان شمسؔ‘‘ کے بقول مذکورہ کاتبوں کی بیٹھک میں انہوں نے ایک مشاعرے کا انعقاد کیا، جس میں ہشنغر، دوہ سرو سے خادمؔ بابا، بادشاہ گل نیازیؔ، خان میر ہلالیؔ، رضا مہمندیؔ (مومندی) اور دوسرے شعرائے کرام نے شرکت کی۔ مذکورہ مشاعرے میں فیضان ؔ صاحب نے بھی اپنا کلام ـ’’طالبؔ‘‘ کے تخلص سے پڑھا۔
اسی مشاعرے میں ان کے دوستوں نے یہ مشورہ کیا کہ فیضانؔ صاحب ہر ادبی سرگرمی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور ان کے فن سے ہم سب کو فائدہ بھی مل رہا ہے۔ کیوں نہ ان کو ادبی خدمت کے صلہ میں ایک خطاب سے نوازا جائے، جو تخلص بھی ہو۔ اس وقت مجمع میں موجود شعرا و ادبا نے اس بات پر اتفاق کیا اور یوں ان کو ’’فیضان‘‘ کے خطاب سے نوازا۔ بعد میں فنِ خطاطی اور ادب کی دنیا میں انہوں نے اسی نام سے شہرت پائی۔
ٓ فیضانؔ صاحب1950ء میں واپس سوات چلے آئے، اور والیِ سوات کے ساتھ کچہری میں بطورِ نقل نویس کام کرنے لگے۔ آہستہ آہستہ ترقی کرتے ہوئے 1960ء میں باقاعدہ طور پر حکم نامے لکھنے لگے۔ اس کے علاوہ شاہی پروگراموں اور مشاعروں کی ذمہ داری بھی ان کے کاندھوں پر تھی۔ اسی دوران میں 1960ء کو فیضانؔ صاحب کا کلام ریڈیو پاکستان سے نشر ہونا شروع ہوا جس میں نعتیں، غزلیں اور گیت شامل تھے۔
فیضانؔ صاحب 1983ء کو فریضۂ حج کی ادائیگی کے لیے اپنی اہلیہ کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ حج کے دوران میں 18 اگست 1983 ء کو اہلیہ کا انتقال ہوگیا اور وہیں ان کو دفن کیا گیا۔
ٓ فیضانؔ صاحب کے آٹھ مجموعہ ہائے کلام منظرِ عام پر آچکے ہیں جن میںــ’’دیوانِ فیضان‘‘، ’’گلدستۂ حجاز‘‘( نعتیہ مجموعہ)، ’’دُرّ یتیم‘‘، ’’تحفۂ جہانزیبی‘‘، ’’سلور گلونہ‘‘، ’’سیدو بابا‘‘، ’’فراق او نورانی شمع‘‘ (نعتیۂ مجموعہ) شامل ہیں۔
نثر کے میدان میں ’’مجموعۃ الکلان‘‘ اور اُردو، فارسی کی پشتو وضاحتوں کے ساتھ تعویذات کے نقوش ’’گلزارِ تعویذات‘‘ قابلِ ذکر ہیں۔
بطورِ کاتب فیضانؔ صاحب کے قلم سے وجود پانے والی تحریریں کافی تعداد میں ہیں، جس کی تفصیل طویل ہوجائے گی، اس کے لیے ایک علاحدہ دفتر درکار ہے۔
بطورِ نمونہ اک آدھ کے نام لکھ دیتا ہوں: ’’نقیب احمد اوچی دیوبندی‘‘ کا ترجمہ جو انہوں نے فارسی سے پشتو میں کیا تھا اور ’’نسخۂ صحیحہ گلستان‘‘ کے نام سے شائع ہوا ہے۔ ریاستِ سوات کی قانونی کتاب (جس میں بعض فیصلوں کے نمونے بھی موجود ہیں)۔ اس طرح ’’رواج نامہ سوات‘‘ بھی آپ کی کتابت ہے۔
فیضانؔ صاحب27 اگست 1987 ء کو انتقال کرگئے۔
(سعید اللہ خادمؔ کی پشتو تصنیف ’’ اداگانی دَ قلم‘‘ صفحہ 220 تا 222 ’’فضل الرحمان فیضانؔ‘‘کا اُردو ترجمہ)
…………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔