مغل شہزادہ، صاحبِ عالم نور الدین سلیم جہانگیر شطرنج کا شیدائی تھا۔ ایک دن صاحبِ عالم کسی ایرانی شہزادے کے ساتھ شطرنج کی بازی میں مصروف تھا۔ بازی اس شرط پر تھی کہ اگر صاحبِ عالم کو مات ہوئی، تو اپنی بیگمات میں سے کسی ایک سے ایرانی شہزادے کے حق میں دستبردار ہو جائیں گے۔ صاحبِ عالم جو شاہِ شطرنج بنا ہوا تھا، اول اول تو بازی اس کے حق میں رہی، پھر اس کا رُخ کچھ ایسا پلٹا کہ شکست صاف صاف نظر آنے لگی۔ صاحبِ عالم گھبرا گئے اور بے قراری کے عالم میں پہلو پر پہلو بدلنے لگے۔ حسنِ اتفاق کہ اس وقت صاحبِ عالم کی سب سے محبوب بیگم ’’دلآرام‘‘ بھی حریری پردوں کی اوٹ سے بازی کا رنگ اور صاحبِ عالم کی مایوسی دیکھ رہی تھی۔ دل ہی دل میں خود بھی بے چین اور مضطرب تھی۔ آخر اس کش مکش کی حالت میں ایک بہانہ تراش کر صاحبِ عالم کو فی الفور اپنی خواب گاہ میں بلا بھیجا۔ بہانہ اس قدر معقول تھا کہ ایرانی شہزادے کو ہنسی خوشی خاموش ہونا پڑا۔ اُدھر اندرونِ محل دوسری بیگمات بھی اس صورتحال سے خبردار ہوگئیں اور سب اپنی جگہ اس بات کی منتظر ہوئیں کہ جوں ہی صاحبِ عالم دلآرام کی خواب گاہ کا رُخ کریں، وہ راہ ہی میں ان سے مخاطب ہو کر اپنا پہلو محفوظ کریں۔ جیسے ہی صاحبِ عالم نے محل کے اندر قدم رکھا سب سے پہلے ’’جہاں بیگم‘‘ ایک عجیب شوخی اور تمکنت کے ساتھ مسکراتی ہوئی سامنے آئی۔ صاحبِ عالم اسے دیکھ کر ذرا ٹھٹکے اور پوچھا، کیوں؟ جہاں بیگم نے جہانگیر کے روبرو اپنی تمنائے جہانگیری کو برجستہ یوں پیش کیا:
تو بادشاہ جہانی، جہاں زدست مدہ
کہ بادشاہ جہاں را، جہاں بکار آمد
صاحبِ عالم نے جہاں بیگم کی جانب دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا: ’’خون!‘‘ اور ساتھ ہی دلآرام کی خواب گاہ کی طرف قدم اٹھایا۔ آگے حیات بیگم اپنے مخصوص ناز و ادا کے ساتھ راہ میں صاحبِ عالم کی منتظر تھی۔ حیات بیگم کو اپنی حیات پہلوئے جہانگیری میں مطلوب تھی، چناں چہ صاحبِ عالم کے سامنے آتے ہی اپنے آرزوئے حیات کو یوں پیش کیا:
جہاں خوش است ولیکن حیات می باید
اگر حیات نہ باشد، جہاں چہ کار آید
یہ سن کر صاحبِ عالم متبسم ہوکر کر بولے: ’’چہ خوب!‘‘ اور برابر دلآرام کی خواب گاہ کی طرف بڑھتے گئے۔ حیات کے بعد راہ میں کھڑی ’’فنا بیگم‘‘ نے اپنے عشوۂ جہاں سوز کے ساتھ غمزۂ حیات کو اپنے فلسفیانہ کلام سے یوں بالائے طاق رکھ دیا:
جہان و حیات و ہمہ بے وفا است
طلب کن فنا را کہ فنا است
یعنی جہان وحیات دونوں بے وفا ہیں نہ جہان کو بقا حاصل ہے نہ حیات کو دوام، جب اول و آخر فنا ہے، تو فنا سے روکش ہونا کیا معنی؟ یہ سنتے ہی صاحبِ عالم پہلے سے اور زیادہ متاثر ہوئے اور مسکرا کر بولے: ’’بسیار خوب!‘‘ بالآخر صاحبِ عالم دلآرام کی خواب گاہ میں پہنچ ہی گئے، جو اسے باقی تینوں بیگمات سے زیادہ محبوب تھی۔ دلآرام نے جہانگیر کے آتے ہی شطرنج کی بازی کا وہ نقشہ پیش کیا جو اس وقت صاحبِ عالم کے روبرو تھا، اور بڑے دلربا انداز میں مسکرا کر یوں کہا:
شاہا دو رخ بدہ، دلآرام را مدہ
پیل و پیادہ پیش کن اسپ کشت مات
یعنی صاحبِ عالم دونوں رُخ دے دیجیے، مگر اپنی دلآرام سے ہرگز دستبردار نہ ہوں۔ فیل و پیادہ کو آگے بڑھائیں، آخری چال گھوڑے کی ہوگی۔ اسی کی شہ پر حریف کو شکست دے دیں۔
یہ سن کر صاحبِ عالم کے چہرے پر بشاشت چھا گئی اور دل خوشی سے تڑپ اٹھا۔ بے ساختہ بول پڑا: ’’خوب، دلآرام خوب!‘‘ اور یوں فوراً باہر آکر دلآرام کی بتائی ہوئی چالوں کے مطابق ایرانی شہزادے کو شکست دے دی۔
عزیزانِ من، ایک یونانی حکیم سے پوچھا گیا کہ فہم و فراست کا دارومدار کس چیز پر ہے؟ اس نے کہا تن درستی پر۔ لیکن اس پر ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ تندرستی کا انحصار کس چیز پر ہے؟ اس کا جواب ڈھونڈنے اگر تحقیق کے صفحات بکھیرے جائیں، تو آپ کو یہ جان کر شاید حیرت ہوگی کہ محنت ومشقت کے بعد مردانہ ورزشیں اور کھیل کود ہی کی بدولت قوائے جسمانی کی نشو و نما ظہور میں آتی ہے، اور مضمحل یا رنجیدہ دماغ راحت پاتا ہے۔ اور جیسا کہ انسانی زندگی جو افکار و حوادث کا مجموعہ ہے، اس سے عہدہ برآ ہونے کے لیے اس کو جس قدر جسمانی طاقت کی ضرورت ہے، اس سے کہیں زیادہ وہ ذہنی اور روحانی بالیدگی کا بھی محتاج ہے۔ چناں چہ حصولِ مسرت کے لیے حکمائے قدیم نے ایسے کھیل ایجاد کیے جو بظاہر ایک لہو و لعب کا ذریعہ ہیں، لیکن ان میں حکمت و دانش کے بہت سے اسرار پوشیدہ ہیں۔ بعض کھیل صرف مشغلۂ حیات نہیں ہوتے، بلکہ اس سے انسان کی شخصیت اور افعال و کردار کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ ایک حکیم کا قول ہے کہ ’’ایک سال کی گفتگو سے زیادہ ایک گھنٹے کا کھیل آدمی کی خصلت اور مزاج کو واضح کر دیتا ہے۔‘‘
ذہنی نشوونما پر مبنی کھیلوں کی تفصیل بعد کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔ سرِ دست ہم صرف شطرنج کی مختصر سی تاریخ پیش کرتے ہیں۔ شطرنج کا تعلق عقل و فہم، غور و فکر اور حافظہ و یاداشت سے ہے۔ بعض لوگ اسے منحوس سمجھتے ہیں، لیکن یہ ان کا وہم ہے اور وہم کی دوا تو سیدنا لقمان کے پاس بھی نہیں تھی۔
’’مسٹر فوربس‘‘، ’’ڈاکٹر ونڈر لینڈے‘‘ اور دوسرے علمائے مشرق ومغرب حیران ہیں کہ کس طرح شطرنج کے مؤجد اول نے ایک مربع فٹ کے کپڑے پر ساری دانائی کو ختم کردیا؟ صاحبِ بہار عجم لکھتے ہیں کہ یہ فارسی زبان کے لفظ ’’سترنگ‘‘ معرب ہے جو ’’مردم گیاہ کے معنی میں بولا جاتا ہے۔‘‘ بعض اہلِ علم کی رائے ہے کہ یہ ’’چترانگ‘‘ کا معرب ہے۔ سنسکرت میں ’’چتر‘‘ چار کے عدد کو اور ’’انگ‘‘ جسم یا عضو کو کہتے ہیں۔ چناں چہ چترنگی اس فوج کو کہا جاتا تھا جس میں چار رکن یعنی ہاتھی، گھوڑا، رتھ اور پیدل ہو۔ اس بازی میں چوں کہ شاہ وفرزیں کے علاوہ فیل، اسپ، رخ اور پیادہ ہیں، لہٰذا اس مناسبت سے اس کو چترانگ کہا جانے لگا۔
بعض محققین کے نزدیک یہ لفظ ’’شد رنج‘‘ تھا یعنی رنج رفت، غم دور ہوا۔ شطرنج دوسرے کھیلوں کے مقابلے میں زیادہ دلچسپ، نشاط انگیز اور غم کا بہترین مداوا ہے۔ بعض کے قول کے مطابق لفظ شطرنج اصل میں’’شصت رنگ‘‘ ہے یعنی متعدد رنگوں والا۔
عزیزانِ من، شطرنج کا مؤجد کون ہے؟ اس میں بھی کافی اختلاف ہے ۔ ہندو کہتے ہیں کہ مہابھارت کے مصنف و مؤرخ ’’بھاوشیہ پورن دیاس‘‘ نے پانڈو کے بڑے لڑکے ’’یڈھشٹر‘‘ کو شطرنج کا کھیل سکھایا تھا۔
ہندو محققین مزید کہتے ہیں کہ لنکا کے راجہ راون کی بیوی نے راجہ کے مشیروں کی مدد سے راون کو خوش کرنے کے لیے شطرنج اس وقت ایجاد کیا تھا جب راجہ رام اور لچھمن نے راون کی راجدھانی کو فتح کرنے کے لیے اس کا محاصرہ کیا تھا۔
تاریخ ٹٹولنے سے پتا چلتا ہے کہ شطرنج قدیم یونان میں بھی کھیلی جاتی تھی، چناں چہ اہلِ یونان ’’فلومیدوس‘‘ کو اس کا مؤجد بتاتے ہیں۔ قاضی ابن خلقان لکھتے ہیں کہ شطرنج کا مؤجد صصہ ابنِ داہر ہندی ہے۔ ہوا یوں کہ عجمی بادشاہ ’’اردشیر‘‘ نے تختۂ نرد ایجاد کیا تھا ۔ اس وجہ سے وہ نردشیر کہلانے لگا۔ اس ایجاد پر اہلِ عجم فخر کرنے لگے۔ جب یہ خبر ہند کے بادشاہ کو پہنچی، تو اس نے صصہ کو حکم دیا۔ چناں چہ اس نے تختۂ نرد کے جواب میں شطرنج ایجاد کی، اور شاہِ ایران کو بطورِ تحفہ بھیجی۔ شطرنج ایران سے عرب پہنچی، عربوں کے ذریعے قبیلہ موریس میں پھیلی اور پھر انہوں نے اسے تمام یورپ میں رائج کیا۔
عباسی خلیفہ ہارون الرشید نے بھی ہاتھی دانت کی ایک خوبصورت شطرنج شارلیمان شاہ فرانس کو بھجوائی تھی جو آج بھی پیرس کے ایک میوزیم میں موجود ہے۔ ابتدا میں شطرنج چار آدمی کھیلتے تھے اور ہر کھلاڑی کے پاس آٹھ مہرے ہوتے تھے، یعنی فیل،اسپ،رخ،شاہ اور چار پیادے۔
فردوسی اپنے شاہ نامہ میں لکھتے ہیں کہ ہندی قاصد نے ایرانی دربار میں جو شطرنج لائی تھی، اس کی بساط رنگ برنگی تھی۔ البتہ یورپ میں 13 ویں صدی عیسوی سے قبل ایسی رنگین بساط کا کوئی وجود نہیں تھا۔ امیر تیمور نے کوشش کی تھی کہ بساط 64 خانوں کی بجائے 12 8کی ہوجائے، لیکن وہ اس تدبیر میں ناکام رہا۔
شطرنج میں انتہائی فراست و دانائی اور حافظہ ویاداشت سے کام لینا پڑتا ہے۔ اس لیے زمانۂ قدیم میں جب بادشاہ کسی کو بڑے منصب پر مامور کرنا چاہتا تھا، تو اسے اس کا امتحان لینے جلسۂ شطرنج میں بھیجا جاتا تھا۔
مشہور ہے کہ ایک ایرانی شہزادہ شطرنج کا اس قدر شیدائی تھا کہ دشمن نے اس کے شہر پر حملہ کیا، لیکن شہزادہ برابر شطرنج کھیلنے میں مصروف تھا۔ فتح کے بعد دشمن کے سپاہی شہزادے کو گرفتار کرنے اس کے محل پہنچے۔ ، شہزادے نے ایک نظر ان کی طرف دیکھا اور بغیر کسی خوف کے ان سے کہا: ’’ذرا تامل کریں۔ مَیں اپنی بازی ختم کرکے تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔‘‘
عزیزانِ من، اگر شطرنج کو محض تفریحِ طبع کے لیے کھیلا جائے، تو بلا شبہ اس کی بدولت انسانی عقل وفہم، غور وفکر اور حافظہ ویاداشت کی کافی نشوونما ہوسکتی ہے، لیکن میری گذارش ہے کہ ازراہِ کرم کسی بھی کھیل کو جوا اور لہو ولعب کا ذریعہ نہ بنائیں۔ شاید آپ کی فہم و فراست دلآرام جیسی نہ ہو اور آپ اپنی محبوب چیز گنوا دیں اور نہ کسی کھیل میں اتنا مستغرق رہیں کہ آپ کی بازی ختم ہونے تک آپ کا سب کچھ لٹ چکا ہوں۔
………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔