مغلوں کے زمانے میں خبر رسانی کا نظام ’’ڈاک چوکی‘‘ کہلاتا تھا، جو شاہراہوں پر جگہ جگہ قائم تھیں۔ ایک چوکی سے دوسری چوکی تک خبر رسانی کا کام ’’دوڑیے‘‘ کرتے تھے یا ’’گھڑ سوار‘‘۔ چوکی میں کام کرنے والا ’’ہرکارہ‘‘ کہلاتا تھا جس کا مطلب تھا ’’ہر کام کرنے والا۔‘‘ دوسرا گزدبردار اور تیسرا دوڑیا یعنی دوڑنے والا، اس طرح تیزی سے خبریں بادشاہ تک پہنچتی تھیں۔ ہر صوبے میں واقع نویس، واقع نگار، سوانح نگار اور خفیہ نویس ہوا کرتے تھے۔ دارالحکومت میں ان کا ریکارڈ رکھا جاتا تھا اور ان اطلاعات کی بنیاد پر انتظامی فیصلے کیے جاتے تھے۔ بادشاہ کے علاوہ امرا بھی جاسوس رکھتے تھے۔ کیوں کہ جب کسی کا تقرر کسی دور دراز صوبے میں ہوجاتا تھا، تو وہ ضروری سمجھتا تھا کہ دربار میں ہونے والی خبریں اس تک پہنچتی رہیں۔
عبدالرحیم خانِ خاناں نے اپنے مخبر مقرر کر رکھے تھے، جو روزانہ آدھے دربار کی خبریں اور عام لوگوں کے حکومت کے بارے میں کیا خیالات ہیں؟ یہ اسے ارسال کرتے رہتے تھے۔ وہ ان خبروں کو پڑھ کر جلا دیتا تھا اور ان کا کوئی ریکارڈ نہیں رکھتا تھا۔
خبروں کا ریکارڈ رکھنے میں اس لیے آسانی ہوئی کیوں کہ تیرہویں صدی عیسوی یعنی عہدِ سلاطین میں کاغذ کی صنعت ہندوستان میں آچکی تھی۔ اس کی وجہ سے انتظامیہ کے لیے دستاویزات کی تیاری آسان ہوگئی اور خبروں کی دستاویزات بھی تیار ہونے لگیں، جو آج اس عہد کی تاریخ کا اہم ماخذ ہیں۔
(ڈاکٹر مبارک علی کی کتاب ’’تاریخ کی خوشبو‘‘ ، مطبوعہ ’’تاریخ پبلی کیشنز‘‘، پہلی اشاعت سنہ 2019ء صفحہ نمبر 102، 103 سے انتخاب)