’’انسائیکلوپیڈیا آف رِلیجن‘‘ کے مطابق ’’روزہ‘‘ یعنی کھانے پینے سے خود کو روک لینا ایک ایسا آفاقی عمل ہے جو مشرق سے مغرب تک کی تمام تہذیبوں میں پایا جاتا ہے۔ اسی طرح ’’انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا‘‘ میں لکھا ہے کہ خاص مقاصد کے لیے یا اہم مقدس اوقات کے دوران یا اس سے قبل روزہ رکھنا دنیا کے بڑے بڑے مذاہب کا خاصا ہے۔
عزیزانِ من، سیدنا آدم علیہ السلام ہر قمری مہینے کے تیرہویں، چودہویں اور پندرہویں تاریخ کو روزہ رکھتے تھے۔ چناں چہ آدمِ ثانی سیدنا نوح علیہ السلام بھی اسی روایت پر عمل پیرا تھے۔
برہمن ہر مہینے کی گیارہ اور بارہ تاریخ کو ’’ایکاوشی‘‘ کا روزہ رکھتے ہیں۔ ہندوؤں میں نئے اور پورے چاند کے دنوں میں بھی روزہ رکھنے کا رواج ہے، جب کہ کفارے اور نذر کے طور پر بھی روزہ رکھنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔
جین دھرم میں تو چالیس چالیس دن تک کا ایک روزہ ہوتا ہے۔
خوشگوار زندگی اپنانے کے لیے بدھ مت کے ہاں جو 13 اعمال ہیں، ان میں ایک روزہ رکھنا بھی ہے۔ نئے اور پرانے چاند کے دنوں کے علاوہ بدھ مت کے پیشواؤں پر ہر مہینے کی چودہ، پندرہ، اُنتیس اور تیس تاریخ کو جزوی روزہ رکھنا لازم ہوتا ہے۔
چینی کلاسیکی مذہب میں بھی روزوں کا تصور واضح ملتا ہے۔ چین، جاپان، کوریا اور ایران کی قدیم تہذیبوں کے ہاں ماتمی روزوں کا بھی تصور ملتا ہے جو مرنے والوں کے لواحقین رکھتے ہیں۔
روس کے علاقے سائبیریا میں ’’اسکیموز‘‘ کے یہاں بھی روزہ ایک خاص عبادت کی حیثیت رکھتا ہے۔
جنوبی امریکہ کے برازیل، ایبی پونز، کے علاوہ متعدد افریقی قبائل اور قدیم رومی و یونانی تہذیبوں میں روحانی مقام حاصل کرنے کے لیے روزے ہی رکھے جاتے ہیں۔
شمالی امریکہ کے برٹش کولمبیا اور میکسیکو میں میت اور آفات سے بچنے کے لیے روزے رکھے جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ اگر ہم ابراہیمی مذاہب کا جائزہ لیں، جو خود کو الہامی مذاہب ڈکلیئر کرتی ہیں، ان میں ایک یہودیت ہے جس میں عام طور پر سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی پیروی میں چالیس دن روزہ رکھا جاتا ہے اور خصوصاً چالیسویں دن کا روزہ تو ان پر فرض ہے، جو ان کے ساتویں مہینے کی دسویں تاریخ کو پڑتا ہے، جسے ’’یومِ عاشورہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اسی دن سیدنا موسیٰ کو تورات کے دس احکام ملے تھے۔ اس کے علاوہ یہودی اپنے اکابرین کی وفات کے دنوں میں یا کسی مصیبت سے نجات کے لیے اور یا کفارہ کے طور پر بھی روزہ رکھتے ہیں۔ سیدنا داؤد علیہ السلام ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کرتے تھے ۔
عیسائیت میں روزوں کی بابت انجیلِ متی میں لکھا ہے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے چالیس دن جنگل میں روزہ رکھا اور سیدنا یحییٰ علیہ السلام بھی روزوں کا اہتمام کرتے تھے۔ اس کے علاوہ کعبۃ اللہ کے مجاور یعنی قریشِ مکہ بھی جاہلیت کے دنوں میں عاشورہ کے دن یعنی دسویں محرم کو روزہ رکھتے تھے۔ کیوں کہ اس دن خانہ کعبہ پر نیا غلاف ڈالا جاتا تھا۔
عزیزانِ من، حاصلِ بحث یہ ہے کہ کوئی بھی مذہب روزہ کے تصور سے نا آشنا نہیں رہا، تو دینِ اسلام جو دینِ حق ہے، جو تمام آسمانی ادیان کا خلاصہ ہے، جو عنداللہ مقبول ہے: ’’ان الدین عند اللہ الاسلام!‘‘ وہ کیسے اس زبردست عبادت سے محروم کیا جاتا؟ چناں چہ ارشادِ باری تعالیٰ ہوا: ’’اے ایمان والو، تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تم پرہیزگار بنو!‘‘
اس آیت سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ روزہ ہر دور میں شریعتِ خداوندی کا جز رہا ہے۔ آج جب ایک مسلمان روزہ رکھتاہے، تو گویا کہ وہ ایسے تاریخی تسلسل کا حصہ بن جاتاہے، جو ہر دور کے دین داروں میں جاری رہا ہے۔ مسلمانوں پر روزے رمضان کے مہینے کے فرض کیے گئے ہیں، اور رمضان قمری سال کا نواں مہینا ہے۔ اس کی وجۂ تسمیہ احادیثِ نبوی میں یہ آئی ہے: ’’فا نہا ترمض الذنوب‘‘ یہ رمض سے مشتق ہے اور رمض کے معنی لغت میں جلا دینے کے ہے۔ اگر رمضان المبارک کا پورا احترام اور اس کے اعمال کا اہتمام کیا جائے، تو اس مہینے کی یہ خصوصیت ہے کہ یہ گناہوں کو جلا کر مسلمانوں کو پاک صاف کردیتا ہے۔ اس لیے اس کا نام ’’رمضان‘‘ رکھا گیا ہے۔
رمضان کا زمانہ مسلمانوں کے لیے مکمل عمل کا زمانہ ہے۔ 29 شعبان کی شام ہوتے ہی اہلِ ایمان کی نظریں چاند دیکھنے کے لیے آسمان میں گڑ جاتی ہیں۔ گویا ان کا شعور جاگ جاتا ہے کہ وہ گردشِ زمین کے اس مرحلہ میں داخل ہوگئے ہیں جس میں انہیں اپنی زندگی کا نقشہ بالکل بدل دینا چاہیے۔ جو دن پہلے کسی احتیاط اور اندیشہ کے بغیر گزرتے تھے، اب انہیں دنوں کو اس زندہ احساس کے ساتھ گذارنا پڑتا ہے کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا۔ ایسا نہ کرو، ورنہ روزہ ٹوٹ جائے گا، ویسا نہ کرو ورنہ روزہ رکھ کر تم بے روزہ ہوجاؤ گے۔
روزہ رکھنے کا پہلا عمل یہ ہے کہ آدمی نیت کرے۔ کیوں کہ رسول اللہ کا فرمان ہے: ’’روزہ صرف وہ شخص رکھے جو فجر سے پہلے اس کا ارادہ کرے۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ روزہ ایک ارادی عمل ہے نہ کہ محض رسمی عمل۔ وہ شعور کے تحت انجام دیا جاتاہے نہ کہ غفلت کے تحت۔ اور دین دار شخص تو وہ ہے جو دینی اعمال کو شعور کے تحت ادا کرتا ہو۔ پھر فجر سے پہلے آخری کھانا کھایا جاتا ہے جسے ’’سحری‘‘ کہتے ہیں۔ حدیثِ نبویؐ ہے کہ ’’سحری کھاؤ، کیوں کہ سحری میں برکت ہے۔‘‘ فجر سے پہلے سحری کھانا اس بات کی یاد دہانی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی سخت کام کا حکم دیتا ہے، تو اسی کے ساتھ آسانی کا انتظام بھی فرما دیتا ہے۔ یعنی جب روزہ کا حکم دیتا ہے، تو اس کی ساتھ سحری کی رخصت بھی دیتا ہے۔ اب اس کا ’’صوم‘‘ شروع ہوتا ہے۔ صوم یعنی روزہ کے اصل معنی ہیں ’’رکنا‘‘ اور صائم کا مطلب ہے ’’رُکنے والا‘‘ یعنی خدا کی نافرمانی سے رکنے والا۔ روزہ خواہشات پر روک لگانے کی مشق ہے۔ رمضان کے مہینے میں اس کی مشق اس آخری حد تک کرائی جاتی ہے کہ آدمی کو کھانے اور پینے جیسی ضروری اور جائز عمل سے بھی روکا جاتا ہے۔ لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم صرف کھانے اور پینے تک خود کو روک لیتے ہیں، باقی خدا کی کسی نافرمانی سے نہیں رکتے۔ ہم روزہ رکھ کر کھانے پینے سے تو رُک جاتے ہیں، لیکن جھوٹ بولنے سے نہیں رکتے، غیبت کرنے سے نہیں رکتے، گالی دینے سے نہیں رکتے، کسی کی بے عزتی کرنے سے نہیں رکتے، ناپ تول میں کمی اور ملاوٹ کرنے سے نہیں رکتے، ذخیرہ اندوزی اور سود جیسے معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے والے گناہوں سے نہیں رکتے، اس قسم کے اعمال میں مبتلا شخص وہ روزہ دار نہیں جو شریعت کو مقصود ہے۔ ان کے بارے میں تو احادیث میں آیا ہے کہ ’’آدمی نے خدا کی جائز کی ہوئی چیز سے روزہ رکھا اور پھر خدا کی حرام کی ہوئی چیز سے افطار کر لیا۔‘‘
عزیزانِ من، صوم یعنی روزہ رکھنے میں پوشیدہ حکمت یہ نہیں کہ آپ کھانا پینا ایک مہینے کے لیے چھوڑ دیں۔ کیا خدا کے رزق کے خزانوں میں کوئی کمی آجاتی ہے؟ نہیں! روزہ رکھوانے سے اللہ تعالیٰ کا منشا یہ ہوتا کہ اے میرے بندے اس ایک مہینے میں تو نافرمانیوں سے بچ جا، اگلے گیارہ مہینے میں تجھے بچاؤں گا۔ یعنی اس ایک مہینے کے مشق میں اللہ نے اتنا اثر رکھا ہے کہ آپ اگلے گیارہ مہینے تک پھر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کرسکتے۔ اس میں اصل مقصود خدا کی نافرمانیوں سے بچنا ہے اور خدا کی نافرمانی کی وجہ خواہشات بنتے ہیں۔یہ پیٹ پوجا یعنی کھانا پینا ہی اکثر خواہشات کو پروان چڑھاتا ہے۔ آپ سے میری گذارش ہے کہ ازراہِ کرم چیزوں کو صحیح زاویہ سے دیکھا کریں اور کھانے پینے سے رکنے کو اصل مقصود نہ ٹھہرائیں۔ شیاطین کو باندھنے کا مطلب یہ ہے کہ رمضان کے مہینے میں ایسے روزہ دار شخص کے اوپر شیطان غیر مؤثر ہو جاتا ہے جو تمام آداب و شرائط کے ساتھ روزہ کا اہتمام کرے۔ جب وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوجائے، تو اس کے اندر پرہیزگاری پیدا ہوجاتی ہے جیسا کہ خدائے واحد کا ارشاد ہے: ’’لعلکم تتقون!‘‘ یہ پرہیزگاری آدمی کے اندر برداشت کی صلاحیت پیدا کرتی ہے اور وہ اس قابل ہو جاتا ہے کہ جب سختیاں پیش آئیں، تو وہ ان کے مقابلہ میں پوری طرح جم سکے۔ رمضان کا مہینا آدمی کے لیے اپنے نفس اور خواہشات سے لڑنے کا مہینا ہے۔ اس مہینے میں بندۂ مومن شیطانی طاقتوں کو زیر کرکے ان کے اوپر قابو پاتا ہے، اور دوبارہ خدا کی بندگی کا عزم لے کر نئے سال میں داخل ہو تا ہے۔ تاریخ حیرت انگیز طور پر روزہ کی اس خصوصیت کی تصدیق کرتی ہے کہ رمضان ہی کے مہینے میں مردانِ خدا نے شجاعت اور فتح کی داستانیں تاریخ کے اوراق پر نقش کی ہیں۔ چناں چہ روحانی مقابلہ کا یہ مہینا فوجی مقابلہ کا مہینا بھی رہا۔ رسولؐ اللہ اور صحابہ کو قریش کے اوپر غزوۂ بدر میں فیصلہ کن فتح رمضان ہی میں حاصل ہوئی۔ رمضان ہی میں مکہ فتح ہوا جس نے پورے عرب پر اسلام کو غالب کردیا۔ عمرو بن العاص نے فلسطین، طارق بن زیاد نے اسپین اور محمد بن قاسم نے سندھ رمضان ہی میں سلطنتِ اسلامیہ کے زیر نگیں کیا۔ مسلمانوں کا اندلس میں داخل ہونا، صلاح الدین ایوبی کو صلیبی طاقتوں پر فتح اور تاتاریوں کو شکست رمضان ہی کے بابرکت مہینے میں ہوئی۔
……………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔