تصوف ایک خاص وقت اور حالات کی پیداوار تھا۔ جب حالات اور وقت میں تبدیلی آئی، تو تصوف کی اِفادیت بھی ختم ہوگئی۔ اب دوبارہ سے تصوف کا احیا ممکن نہیں۔ اس کی پرچھائیاں ضرور ہیں، مگر اس کا حقیقی کردار ختم ہوچکا ہے۔
یہی کچھ حال فلسفے کا ہے۔ مذہب اور عقیدے کے تسلط میں متکلم تو پیدا ہوسکتے ہیں، مگر فلسفی نہیں۔ یہ ہماری کم مائیگی ہے کہ ہم نے اقبالؔ کو بھی فلسفی بنا دیا ہے۔ اوّل تو کوئی شاعر فلسفی ہو نہیں سکتا۔ کیوں کہ فلسفے کو نثر میں لکھا جاسکتا ہے، شاعری میں نہیں۔
اقبالؔ کے فلسفی کے ہونے کا انکار کرتے ہوئے علی عباس جلالپوری نے اپنی کتاب ’’اقبال اور اس کا علم الکلام‘‘ میں انہیں ’’متکلم‘‘ کہا ہے۔
اس وقت اسلامی دنیا میں کوئی فلسفی نہیں۔ مدرسوں کے نصاب میں فلسفے کو شامل نہیں کیا جاتا۔ 1866ء میں جب دیو بند مدرسہ قائم ہوا، تو اس کے نصاب سے فلسفہ خارج تھا۔ اب ہماری جامعات میں یورپی فلسفہ پڑھایا جاتا ہے۔ اس تعلیم نے مقلد تو پیدا کیے، مگر فلسفی نہیں۔ لہٰذا ہمارے ہاں یا تو شاعر ہیں یا علما، لیکن فلسفی کوئی نہیں۔ کیوں کہ ان دونوں کا تعلق جذبات سے ہوتا ہے۔ اس لیے لوگوں میں اشتعال انگیزی اور احساسات کی انتہا پسندی ہے۔ فلسفہ جو مسائل کو عقل و دلیل اور ٹھنڈے مزاج کے ساتھ سوچتا ہے یا تجزیہ کرتا ہے اور ذہن کی پختگی کرتا ہے۔ اس سے ہم محروم ہیں۔
(’’تاریخ کی چھاؤں‘‘ از ڈاکٹر مبارک علی، پبلشرز ’’تاریخ پبلی کیشنز‘‘، اشاعتِ دوم 2019ء، صفحہ 103 سے انتخاب)