زبان و ادب کی ترقی میں اخبارات و رسائل اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ پشتو زبان و ادب کی ترقی میں جن رسائل نے کلیدی کردار ادا کیا ہے، ان میں ایک ’’پختون‘‘ رسالہ بھی ہے۔ یہ رسالہ خدائی خدمت گار تحریک کے بانی عبدالغفار خان المعروف باچا خان نے ’’انجمنِ اصلاح الافاغنہ‘‘ کے زیرِ اہتمام مئی 1928ء میں شروع کیا تھا۔ اس کے بانی ایڈیٹر عبدالغفار خان اور سب ایڈیٹر محمد اکبر خادم تھے۔ اُس وقت یہ پشتو زبان کا اہم رسالہ تھا۔ اس میں اُس وقت کے شعرااور اہلِ قلم کی تخلیقات شائع ہوتیں۔ 1930ء میں باچا خان کی گرفتاری کی وجہ سے یہ رسالہ بند ہوا۔ مئی 1931ء میں یہ دوبارہ شروع ہوکر عبدالخالق خلیق کی زیرِ ادارت شائع ہوتا رہا۔ دسمبر 1931ء میں یہ ایک دفعہ پھر بند ہوا۔ 1938ء میں تیسری بار یہ جاری ہوا اور اس طرح1941ء میں پھر اس پر پابندی لگ گئی۔ چوتھی بار 1945ء سے جاری ہوکر پاکستان بننے تک شائع ہوتا رہا۔ 1947ء میں حکومت کی طرف سے اس رسالے پر مکمل پابندی عائد کی گئی۔ بنیادی طور پر یہ رسالہ خدائی خدمت گار تحریک کے مقاصد کی اشاعت کے لیے شائع ہوتا رہا، لیکن اُس زمانے میں اِس نے پشتو زبان و ادب کی بے حد زیادہ خدمت بھی کی۔ کیوں کہ اُس زمانے میں پشتو زبان و ادب کو لوگ اہمیت نہیں دیتے تھے۔ اس رسالے میں اس وقت کے اہم سیاسی راہ نماؤں کی تقاریر کے ترجمے باقاعدگی سے شائع ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ اس میں ادبی، تاریخی اور تحقیقی مواد بھی شامل ہوتا تھا۔ آج تک یہ رسالہ شائع ہوتا ہے۔
جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ پشتو زبان و ادب کی ترقی میں ریاستِ سوات کے حکمران میاں گل عبدالودود (باچا صاحب) نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ کیوں کہ اُس نے پشتو کو سرکاری زبان کا درجہ دیا تھا، اور وہ پشتو کی اہم کتابوں کو ریاستی سرپرستی میں شائع کرکے لوگوں میں مفت تقسیم کیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ بہت سی اہم کتابوں کے پشتو میں تراجم بھی ریاستی سرپرستی میں کیے گئے ہیں۔
پشتو زبان کی اس گراں قدر خدمت کے باوجود ریاست سوات میں ’’پختون‘‘ رسالہ کی آمد پر پابندی تھی، اور ریاست کا کوئی باشندہ اس کو اپنے پاس کھلے عام نہیں رکھ سکتا تھا۔ دستیاب معلومات کے مطابق ریاستِ سوات میں سب سے پہلا بک شاپ ’’ریفول استاد‘‘ کا تھا۔ ریفول استاد اس وقت سوات کے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص تھے۔ ان کو 1932ء میں اس وجہ سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا کہ ان کی دکان میں ’’پختون‘‘ رسالہ پایا گیا تھا۔
اس کے بارے میں ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ وہ ریاستِ دیر کے ساتھ خفیہ ساز باز رکھتے تھے۔ ان کی لاش تین دن تک سیدو مینگورہ روڈ پر ایک درخت سے لٹکتی رہی۔ ڈاکٹر سلطان روم اپنی کتاب "Swat State” میں اس بارے میں لکھتے ہیں۔
Falsely accused of having secret communications with the Nawab of Dir, Reful Ustad-a refined, popular and one of the most literate persons in Swat- was shot in 193 2because the journal "Pukhtun”, Published by the Red Shirts, was found in his shop.”
اس قسم کی باتوں پر سزائے موت دینے کی دو وجوہات ہوسکتی تھیں۔ ایک یہ کہ پختون رسالہ میں ریاستِ سوات کے حکمرانوں کی پالیسیوں کے خلاف بیانات ہوتے، یا یہ کہ اس وقت ریاستِ سوات کو برطانوی حکومت نے باقاعدہ ریاست کے طورپر تسلیم کیا تھا، اور یہاں کے حکمرانوں نے بھی برطانوی حکومت کی وفاداری کا حلف اٹھایا ہوگا اور چوں کہ پختون رسالہ میں برطانوی راج کے خلاف اور انگریزوں سے آزادی کے متعلق مواد شائع ہوتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ریاستِ سوات میں پختون رسالہ پر پابندی تھی۔ یہاں کے حکمران شاید یہ خیال کرتے تھے کہ ایسا نہ ہو کہ برطانوی راج ان کی وفاداری پر شک کرے اور وہ مزید مسائل میں پھنس جائیں۔
اخبارات و رسائل میں ریاست کی پالیسیوں کے خلاف کسی قسم کی بات والیانِ ریاست برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ اس کی ایک مثال سحر یوسف زئی کو ملازمت سے نکالنے کی بھی ہے۔ کیوں کہ ’’ایلم‘‘ میگزین میں اس کے زیر ادارت شائع ہونے والے پشتو حصہ میں ’’سنٹرل جیل کی ایک قیدی کی فریاد‘‘ کے نام سے ایک نظم شائع ہوئی تھی۔
تاہم پختون رسالہ کی اتنی مخالفت کی وجہ 1931,1932ء کے رسائل دیکھنے سے بڑی حد تک معلوم ہوسکتی ہے کہ اس وقت کے رسائل میں ریاستِ سوات کے بارے میں کون سے تاثرات شائع ہوتے تھے؟

…………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔