اگر آپ کے سامنے دفعتاً ایک بارُعب شخصیت آ جائے جو سرو قد ہو، جس کے چہرۂ انور سے سنجیدگی ٹپکتی ہو، اکہرا بدن، چمپئی رنگت، چوڑی پیشانی، روشن آنکھیں، ستواں ناک، مخروطی انگلیاں، ملکوتی آواز، گوتمی مسکراہٹ گھنی اور لمبی داڑھی، بالوں میں چاندی اُتری ہوئی اور سر پر سوات کی مخصوص ٹوپی (گرارئی پکول) ہو، تو سمجھ جائیں کہ یہ کوئی اور نہیں قبلہ ڈاکٹر سلطان روم صاحب ہیں۔
قارئین کرام! میری روزِ اول سے دیرینہ خواہش رہی ہے کہ جن شخصیات نے نمود و نمائش کی سوچ سے بالاتر ملک و قوم کی خدمت کا بیڑا اٹھایا ہے، میری ٹوٹی پھوٹی تحریر (انٹرویو کی شکل میں) کے ذریعے دنیا انہیں پہچان لے، مگر……!
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
مگر اس بار طرفہ سوجھی کہ انٹرویو کے لیے مذکورہ شخصیات کی اجازت نہ سہی، ایک عدد تعارفی خاکہ ہی سہی۔ اس حوالہ سے ایک شخصیت (جو ہمارے روحانی پیر ہیں) جب تک بقیدِ حیات ہیں، تو اُن کے حوالہ سے تحریر اُس بھاری پتھر کی سی ہے، جسے چوم کر واپس رکھا جاسکتا ہے اور کچھ نہیں کیا جاسکتا، کیوں کہ آپ کی طرف سے سختی سے تاکید کی گئی ہے کہ آپ کا نام اخباری صفحات کی زینت نہ بنے۔ قبلہ ڈاکٹر صاحب بھی کئی موقعوں پر اشارہ دے چکے ہیں اور اک آدھ بار فون کے ذریعہ بھی کہہ چکے ہیں کہ ان کی ذات کا ذکر ان کے تحقیق کام کے حوالہ سے نہ ہو، تو بہتر ہوگا۔ شاید پہلی بار میں ان کی حکم عدولی کرنے جا رہا ہوں۔
زیرِ نظر سطور بھلے ہی خاکہ کی تعریف پر پوری نہ اترتی ہوں، مگر اِک قرض ہے جسے چکانے جا رہا ہوں۔ بقولِ شاعر
وفا کا ذکر کریں گے، جفا کو پرکھیں گے
خموش رہ کے نہ گزرے گی زندگی ہم سے
قبلہ ڈاکٹر سلطان روم کی اب تک پانچ تصانیف(تین انگریزی اور دو پشتو) زیورِ طبع سے آراستہ ہوچکی ہیں۔ انگریزی کی تینوں تصانیف ’’آکسفورڈ‘‘ جب کہ پشتو (تصانیف) سوات کی چوٹی کی پبلشنگ کمپنی ’’شعیب پبلشرز‘‘ کی شائع شدہ ہیں۔ یہاں یہ رقم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ مذکورہ پانچوں تصانیف تحقیق کے مروجہ اصولوں پر پورا اترتی ہیں۔
جاوید چوہدری کی کتاب ’’زیرو پوائنٹ ون‘‘ کے دیباچہ میں وہ رقم کرتے ہیں کہ مَیں نے اپنی ماں سے پوچھا کہ کتاب پر ’’تقریظ‘‘ کے حوالہ سے شش و پنج کا شکار ہوں۔ یہ کام کس سے لوں؟ ماں پوچھتی ہیں، بیٹا! یہ تقریظ کیا شے ہوتی ہے؟ آپ جواب دیتے ہیں، اماں! یہ کسی تصنیف پر کسی بڑے لکھاری کا اظہارِ رائے ہوتی ہے جو عموماً توصیفی ہوتی ہے۔ اس سے تصنیف کی ویلیو بڑھ جاتی ہے۔ ماں جواب دیتی ہے، بیٹا! اپنی تصنیف کو کتابوں کے اس سمندر میں پھینک دو۔ اگر تیری تحریر میں دَم ہے، تو کتاب تیر کر سطح پر آجائے گی اور اگر اس میں دم نہیں، تو تُو لاکھ چاہے اسے ڈوبنے سے بچا نہیں پائے گا۔
بعینہٖ یہی صورتحال قبلہ کی تصانیف کی بھی ہے۔ آپ ’’متلونہ‘‘ اٹھا کر دیکھ لیں، یا حالیہ شائع شدہ ’’ٹپے‘‘ کسی قسم کی کوئی تقریظ آپ کو دیکھنے کو نہیں ملے گی۔

جہانزیب کالج کی تاریخی عمارت کے شعبۂ تاریخ میں لکھاری کی ڈاکٹر سلطانِ روم کے ساتھ یادگار تصویر۔

ریاستِ سوات پر آپ کے پی ایچ ڈی مقالہ”Swat State” کی گرد اُڑائی جائے یا اس کا اُردو ترجمہ ’’ریاستِ سوات‘‘، احساس ہو جاتا ہے کہ تحقیق، پشتو محاورہ ’’د وَسپنے نینے چیچل‘‘ (یعنی لوہے کے چنے چبانا) کے مصداق کٹھن کام ہے۔ اس لیے آپ کا حلقۂ احباب تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ بقولِ شاعر
خود بخود چھوڑ گئے ہیں، تو چلو ٹھیک ہوا
اتنے احباب کہاں ہم سے سنبھالے جاتے
ڈاکٹر صاحب کے سوات کے مخدوش حالات میں لکھے گئے تحقیقی کالموں پر مبنی ایک کتاب زیرِ طبع ہے، جو جلد ہی ہماری لائبریریوں کی زینت بننے والی ہے۔
حبیب احمد (ایم اے اردو، سبجیکٹ سپیشلسٹ گورنمنٹ سیکنڈری سکول بلوگرام) بھی ہماری طرح قبلہ کے معتقدین میں سے ہیں۔ ہماری گفتگو کا تان اکثر ڈاکٹر صاحب پر آکر ٹوٹتا ہے۔ ایک دفعہ انہوں نے کہا: ’’ڈاکٹر صاحب کی علمیت اور ان کی تحقیقی کاوشوں کے تو ہم روزِ اول سے معترف ہیں، مگر بحیثیت ایک معمارِ قوم آپ کی یہ خوبی شعبۂ درس و تدریس سے وابستہ افراد میں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے کہ آپ اپنی کلاس پر کسی قسم کا سمجھوتا نہیں کرتے۔ ایک دفعہ تاریخ کے حوالہ سے ایک قومی کانفرنس سے اس لیے انکار فرمایا کہ اُس میں شرکت سے طلبہ و طالبات کی قیمتی کلاسیں ضائع ہونے کا اندیشہ تھا۔ حالاں کہ ہمارے بیشتر پروفیسر صاحبان ایسا موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔‘‘
قبلہ تاریخی کتب کے ساتھ ساتھ ادب کے بھی رسیا ہیں۔ اسے آپ کا بڑا پن کہہ لیں یا ذرہ نوازی کہ کسی علاقائی مصنف یا مؤلف سے کتاب تحفتاً لیتے کم از کم میں نے نہیں دیکھا۔ ہماری محفل کو زعفراں زار بنانے والے مرنجاں مرنج شخصیت محمد عادل تنہاؔکی شاعری کی اکلوتی کتاب ’’سب کچھ تمہارے نام‘‘ چھپی، انہوں نے ایک کتاب قبلہ کو تحفتاً دینی چاہی۔ آپ نے انکار فرما دیا اور کہا: ’’تنہاؔ، مَیں آپ کی کتاب قیمتاً خریدوں گا۔‘‘
شعیب سنز پبلشرز اینڈ بک سیلرز کے منیجر سجاد احمد کے بقول : ’’پندرہ سال سے مَیں شعیب سنز میں فرائض انجام دے رہا ہوں۔ پچھلے دس بارہ سال سے قبلہ مختلف کتب کے ساتھ ساتھ رسائل و جرائد کے باقاعدہ قاری ہیں۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ آپ نے کبھی کسی کتاب میں رعایت طلب کی ہو۔ تشریف لاتے ہیں، علیک سلیک ہوتی ہے، حال احوال کے بعد مطلوب شے اٹھائی جاتی ہے اور واپس تشریف لے جاتے ہیں۔‘‘
برسبیلِ تذکرہ، حالیہ نیشنل بُک فاؤنڈیشن کی طرف سے کتب کے رسیا خواتین و حضرات کے لیے کارڈز ایشو ہوئے، جن کی مدد سے کتب رعایتاً دستیاب ہوتی ہیں۔ قبلہ ڈاکٹر صاحب نے نہ صرف اپنا کارڈ ایک طالب علم کو عنایت کیا بلکہ شعیب سنز کے منیجر کو تاکید کی کہ بچہ اپنی ضرورت کے مطابق جتنی بھی کتب منتخب کرنا چاہے، اس سے ہرگز رقم کا تقاضا نہ کیا جائے۔ منیجر شعیب سنز کے مطابق کارڈ میں چھے ہزار روپیہ کی کتب خریدنے کی گنجائش ہوتی ہے اور بچے کی ضرورت کارڈ کی مذکورہ رقم میں پوری ہوئی۔

شعبۂ تاریخ میں سیمینار کے موقعہ پر لی گئی تصویر، ڈاکٹر محمد علی دیناخیل بھی ساتھ بیٹھے ہیں۔ (فوٹو: سحابؔ)

قارئین کرام! ہر سال عید الفطر اور عیدالضحیٰ کے پُرمسرت موقعوں پر ہم ڈاکٹر صاحب کی قدم بوسی کرنے کی خاطر ان کے حجرے پر حاضری ضرور دیتے ہیں۔ ذکر شدہ موقعوں پر ہماری طرح کئی معتقدین ان کے حجرے پر موجود ہوتے ہیں۔ آپ حجرہ کے اندر قدم رنجہ فرماتے ہیں، تو ڈاکٹر صاحب کی گوتمی مسکراہٹ آپ کی طبیعت بحال کردیتی ہے۔ اس کے بعد ان کا معانقہ و مصافحہ اور پُرخلوص مہمان نوازی رہی سہی کسر پورا کردیتی ہے۔
پیاسے کے کنویں کے پاس جانے کے حوالے سے تو سب نے سنا ہوگا، مگر کنویں کے پیاسے کے پاس آنے کا شاید ہی کسی نے سنا ہو۔ ہم علم کے پیاسے ہیں، اور پروردگار کا کرم ہے کہ ہماری پیاس بجھانے ڈاکٹر صاحب ہر پندرھواڑے شعیب سنز تشریف لایا کرتے ہیں۔ اگر ہم غیر حاضر ہوں، تو کال ملا کر کہتے ہیں: ’’سحابؔ!ہم شعیب سنز میں ہیں، فارغ ہوں، تو درشن کرائیے!‘‘ فراغت کسے نصیب، سب کچھ چھوڑ چھاڑ، بھاگم بھاگ خدمت میں حاضری یقینی بناتے ہیں۔ ہم عیدین پر اپنی حاضری لگانے سے نہیں چوکتے، جب کہ ڈاکٹر صاحب ہر پندرھواڑے اپنے درشن کرانے سے۔
آج کل ڈاکٹر صاحب سبک دوشی کی زندگی گزار رہے ہیں مگر تصنیف و تالیف کا عمل جاری و ساری ہے۔ صحت پہلے جیسی نہیں رہی، مگر کام ہے کہ انہیں آرام کرنے نہیں دے رہا۔ دعا ہے کہ پروردگار، انہیں لمبی صحت مند زندگی عطا فرمائے، آمین!
زیست کرنے کے سب انداز اسے ازبر تھے
مجھے مرنے کا سلیقہ بھی نہ آیا شائد

…………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔