بنگالی خاندان بلاشبہ سوات کی تاریخ کا ایک معتبر حوالہ ہے۔ جہاں تک میرے ناقص علم کا تعلق ہے، مذکورہ خاندان کے حوالہ سے کم ہی لکھا گیا ہے۔ مجھے گاہے گاہے اس حوالہ سے کرید ہوتی تھی۔ آج جب قلم اٹھایا، تو کئی حوالے میرے سامنے ایسے آئے جن کی وجہ سے اس خاندان کے ساتھ میری عقیدت میں اضافہ ہوا۔
بنگالی خاندان بارے استادِ محترم فضل ربی راہیؔ اور محترم اصیل زادہ اپنی مرتب کردہ کتاب ’’شجرۂ نسب بنگالی خاندان (سوات)‘‘ کے صفحہ 8 پر روشن خان کی تصنیف ’’یوسف زئی قوم کی سرگذشت‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے رقم کرتے ہیں: ’’بنگالی خاندان کا تعلق دراصل سواتیوں میں متراوی قبیلے سے ہے۔ جو افغانوں کا ایک مشہور و معروف قبیلہ ہے۔ سوات میں موجودہ یوسف زئی پشتونوں کے آنے سے پہلے یہی لوگ سرزمینِ سوات میں آباد تھے۔ کسی زمانے میں یہ قوم موجودہ افغانستان میں رہائش پذیر تھی۔ جس نے سلطان شہاب الدین محمد غوری کے عہد میں سوات پر حملہ آور ہوکر چار سو سال تک حکومت کی۔ پشتو ان کی مادری زبان ہے۔ آج سے قریباً 235 سال قبل اس خاندان کے ایک فرد رستم علی نے بنگال کو ہجرت کی تھی اور کافی عرصہ بعد وطن واپس لوٹے۔ جس کے بعد ان کی اولاد بنگالی پکاری جانے لگی۔‘‘
اسی صفحہ پر آگے رقم ہے: ’’رستم علی جو بنگال بابا کے نام سے معروف ہیں، بنگالی خاندان کے جد اعلیٰ ہیں۔ بنگال بابا دراصل سوات کے رہنے والے تھے۔ وہ اپنے آبائی گاؤں علی گرامہ (علاقہ نیک پی خیل) سے بنگال تشریف لے گئے تھے۔ وہ اس وقت عہدِ شباب میں تھے اور بنگال میں انہوں نے طویل مدت گزاری۔ پھر وہاں ان کے ہاتھوں برادر زاد بھائی قتل ہوا، تو انہوں نے بنگال سے واپس اپنے وطن کی راہ لی۔ ‘‘
راہی صاحب کی تحقیق کے مطابق: ’’رستم علی خان (بنگال بابا) کے دو بیٹے تھے۔ ایک کا نام محمد علی اور دوسرے کا نام حشمت علی تھا۔ حشمت علی جنہیں بنگال بابا بھی کہا جاتا ہے، شہید بابا کے نام سے مشہور ہیں۔ اور ان کا مزار چارباغ میں ہے۔ یہ خاندان ان دو بزرگوں سے پھیل گیا ہے۔ محمد علی کی اولاد مینگورہ میں رہائش پذیر ہے، جسے ’’مینگورہ کورنئی‘‘ کہتے ہیں اور حشمت علی کی اولاد چارباغ میں رہائش پذیر ہے، جسے ’’چارباغ کورنئی‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔‘‘
اس حوالہ سے ہمارے ہر دلعزیز نعیم اختر صاحب کے بقول، مینگورہ میں بنگالی خاندان روزِ اول سے ’’باغ محلہ‘‘ میں رہائش پذیر تھا۔ ’’ہمارے خاندان کے حوالے سے اکثر چاچا کریم بخش فرمایا کرتے تھے کہ ہمارا تعلق متراوی قبیلے سے ہے اور ہم یہاں یوسف زئیوں سے پہلے آکر آباد ہوئے تھے۔‘‘
نعیم اختر کے بقول یوسف زئیوں کا کام سپاہ گری یا کھیتی باڑی تھا، جب کہ بنگالی خاندان کاروبار کے حوالہ سے شہرت رکھتا تھا۔ پشتو (پختو) دور اور اس کے بعد جب ریاست کی داغ بیل ڈالی گئی، تو ریاست کی بنیادیں مضبوط کرنے اور کاروباری حوالہ سے اسے ایک ترقی یافتہ ریاست بنانے میں بھی مذکورہ خاندان کا کردار رہا۔
اس حوالہ سے راہیؔ صاحب ’’شجرۂ نسب بنگالی خاندان (سوات)‘‘ کے صفحہ نمبر 12 پر ایک شخصیت ’’یحییٰ خان‘‘ کا ذکر کچھ یوں کرتے ہیں: ’’بنگالی خاندان میں یحییٰ خان وہ زندۂ جاوید شخصیت ہیں، جنہیں سوات کو اقتصادی طور پر آباد کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ آپ نے سوات کے ابتدائی دورِ حکومت میں بانئی سوات بادشاہ صاحب (مرحوم) کو حکومت کا نظم و نسق چلانے کے لیے 13 ہزار روپے دیے تھے، جو آج کل کے حساب سے لاکھوں روپے بنتے ہیں۔ آپ نے 1932 عیسوی بمطابق میں وفات پائی۔ آپ کی وفات کے وقت بادشاہ صاحب نے آپ کو وہ 13ہزار روپے کی رقم واپس کردینا چاہی تھی، تو آپ نے یہ کہہ کر رقم لینے سے انکار کیا تھا کہ یہ رقم سوات کی تعمیر و ترقی میں لگا دی جائے۔‘‘
اس خاندان کی خدمات کی فہرست لمبی ہے، جیسے مذکورہ صفحہ کے دوسرے پیراگراف میں چاچا کریم بخش اور کامران خان کی خدمات کو بھی جگہ دی گئی ہے، راہی صاحب رقم کرتے ہیں: ’’آپ دونوں نے یحییٰ خان کی یاد میں سیدوشریف ہسپتال میں خون کا عطیہ جمع کرنے کے لیے 1979ء میں سوات میں پہلی مرتبہ بلڈ بینک قائم کیا۔‘‘
اس طرح بنگالی خاندان کو عبدالعزیز خان کی وجہ سے یہ انفرادیت حاصل ہے کہ آپ سوات میں سب سے پہلے ٹرک خرید کر لائے۔ راہی صاحب رقم کرتے ہیں: ’’اس سے قبل سوات میں ٹرک آیا تھا اور نہ اور کوئی جدید باقاعدہ ٹرانسپورٹ کا نظام ہی رائج تھا۔‘‘
راہیؔ صاحب مذکورہ کتابچہ کے صفحہ نمبر 11 پر حاجی حکیم محمد امیر کا ذکر بھی کرتے ہیں جو رشتہ میں ان کے دادا تھے۔ لکھتے ہیں: ’’مجرباتِ خادم کے نام سے دنیائے طب میں دو مستند اور مجرب قلمی کتابوں کا اضافہ کیا ہے، جو آپ کی تمام طبی زندگی کا تجرباتی نچوڑ ہے۔‘‘
نعیم اختر کے بقول، ریاستی دور میں بنگالی خاندان کا ایک اہم کردار جسے سراہا جانا چاہیے، وہ کامران خان کا ہے۔’’ایک ایسے وقت میں جب آپ کا پورا خاندان دربار کے ساتھ لنک ہو، ریاست (ریاستِ سوات) کا خیر خواہ ہو، ایسے میں آپ اٹھتے ہیں اور بشری حقوق (ہیومن رائٹس) کی بات کرتے ہیں۔ یہ اُس دور میں لوہے کے چنے چبانے کے مترادف تھا۔ اُس دور میں تین کی ٹولی یعنی چاچا کریم بخش، کامران خان اور میرے والد بزرگوار داؤد باچا کانگریس کی تحریک سے متاثر تھے۔ اس وقت بشری حقوق کے حوالہ سے ایک ننھا سا بیج کامران خان نے بویا تھا۔ اس لیے مَیں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ عام عوام میں جمہوری آگاہی کا سہرا بلاشبہ ان کے سر ہے۔‘‘
نعیم اختر صاحب کے ساتھ باتوں باتوں میں چاچا کریم بخش کا ذکرِ خیر آیا، تو مَیں نے ٹکڑا لگایا کہ ایک دور میں چاچا جی اس پورے علاقہ کے طلبہ و طالبات میں بلامعاوضہ درسی کتب تقسیم کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ مَیں بھی ان کے آستانے پر نئی جماعت کے لیے کتابیں حاصل کرنے گیا تھا۔ مَیں گر چہ ناکام لوٹا تھا مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ان کا عظیم کام تھا۔ اس حوالہ سے نعیم اختر کا کہنا تھا: ’’چاچا کریم بخش تھے تو ایک سیاسی شخصیت، مگر جب ان کے سماجی کاموں پر نظر ڈالی جائے، تو بندہ یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ ان جیساسماجی کارکن سالوں میں کوئی ایک پیدا ہوتا ہے۔ 80 عیسوی کی دہائی میں سالانہ تقریباً پانچ چھے لاکھ روپیہ کی بالکل مفت کتابیں تقسیم کرنا ان کی دریا دلی اور علم دوستی کا ثبوت تھا۔ جتنا مَیں جانتا ہوں یہ کارِ خیر کوئی آٹھ دس سال نہیں بلکہ 1960ء سے چاچا کی وفات تک جاری رہا تھا۔ مساجد کی تعمیر، لڑکیوں کے لیے جہیز، غریب بچوں کے تعلیمی اخراجات، اس کے علاوہ درجنوں ایسے کام جن پر چاچا کریم بخش کے نام کی تختی تھی، نہ کوئی اخباری بیان، نہ اس طرح کی کوئی اور تشہیر۔ نمونہ کے طور پر ’بلڈ بینک‘ ہی کو لے لیں، اس پر بھی اپنے نام کی تختی ڈالنے کی جگہ اپنے دادا کا نام رقم کیا۔‘‘
بنگالی خاندان کے حاجی اسماعیل اور حاجی اسحاق ریاست کے دور میں کاروبار کے حوالہ سے بڑا نام ہیں۔ دونوں والیِ سوات کے منظورِ نظر تھے۔ انہیں پرمٹ جاری کیے گئے تھے، جس کی وجہ سے مختلف اشیائے ضروریہ باآسانی درآمد کیا کرتے تھے۔ یہاں سے بھی غذائی اجناس برآمد کرنا آپ کے فرائض میں شامل تھا۔ یوں ریاست کی ترقی و خوشحالی میں اپنا بھرپور حصہ ڈالتے تھے۔
یوں تو اس خاندان کے سپوتوں کی تعداد درجنوں میں ہے مگر جنہیں مَیں جانتا ہوں، یا جن کے نام اس وقت مجھے یاد ہیں وہ کچھ یوں ہیں، سابقہ چیف جسٹس آف پاکستان ناصر الملک، ڈاکٹر روشن ہلال، سرجن ریاض، ڈاکٹر رشید، احمد ہلال، ایڈوکیٹ امجد ہلال، ڈاکٹر بلال، سینیٹر شجاع الملک خان، ہمارے سکاوٹ اور خپل کور فاؤنڈیشن کے سرپرستِ اعلیٰ رفیع الملک لالاجی، سول سرونٹ نعیم اختر، سول جج ندیم اختر، سوات کی اولین فی میل ڈاکٹروں میں سے ایک زینت محل، ہمارے استادِ محترم فضل ربی راہیؔ، نیاز احمد خان اور سکندر حیات کسکرؔ وغیرہ۔

…………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔