قیامِ پاکستان کے چند مہینے بعد اہلِ کشمیر، ڈوگرہ حکومت کے ظلم و ستم سے جاں بہ لب ہوکر رہ گئے۔ بھارت کے ساتھ ڈوگرہ حکومت کے ساز باز کے نتیجہ میں بھارت سے ہندو اور سکھ جماعتوں کے بے شمار دستوں کے کشمیر میں داخل ہونے سے کشمیری مسلمانوں پر مزید ظلم ڈھایا گیا۔ اس ظلم و جبر کے خلاف مسلمانانِ کشمیر نے سردار عبدالقیوم خان کی قیادت میں ڈوگرہ حکومت کے خلاف طبلِ جنگ بجایا۔ ہندوؤں اور سکھوں کے ظلم و ستم سے جہاں پختونخوا کے اس وقت کے قبائل کے دلوں میں غیض و غضب اور جوشِ انتقام کی لہر دوڑ گئی، وہاں اُس وقت کی ریاستِ دیر کی اقوام کی رگِ حمیت بھی پھڑکے بغیر نہ رہ سکی۔ نوابِ دیر نے عوام کے مجاہدانہ اور سرفروشانہ جذبات سے متاثر ہوکر سرکاری طور طبلِ جنگ بجایا۔ نوابِ دیر کے صاحبزادے ولی عہد محمد شاخسرو کشمیر کی لڑائی کے سلسلے میں چوں کہ زیادہ سرگرم تھے، لہٰذا نوابِ دیر نے فوجی دستوں کے نظم و نسق، نقل و حمل اور دیگر ضروری امور کا اہتمام انہی کے سپرد کیا۔
ولی عہد محمد شاہ خسرو نے ادینزئی اور تالاش کے ریاستی ملازمین اور رضاکاروں پر مشتمل آٹھ سو افراد کا فوجی دستہ تیار کیا، جس کی کمان تحصیل دار ادینزئی عبداللہ جان کے سپرد کی۔ یوں یہ دستہ نومبر 1947ء کے اوائل میں میرپور کے محاذ پر روانہ ہوگیا۔ ولی عہد اس دستہ کے ساتھ چکدرہ تک خود گئے اور وہاں پر ایک پُرجوش اور ولولہ انگیز تقریر کے بعد دستہ کو رخصت کیا۔
23 نومبر 1947ء کو بروزِ اتوار ریاستِ دیر کی فوج نے میرپور پر ہلہ بول دیا۔ اچانک اور غیر متوقع حملہ کی بدولت مذکورہ فوج شہر میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئی۔ میرپور فوجی لحاظ سے کافی مضبوط محاذ تھا۔ بدیں وجہ ریاستِ دیر کی فوج رات کو حملہ آور ہوئی تھی۔ صبح فوج اپنے مورچوں کی طرف واپس لوٹ آئی۔ پھر ایک دن قیام کے بعد بروزِ منگل 25 نومبر 1947ء کی صبح دوبارہ مذکورہ فوج نے ہلہ بول دیا۔ یہ لڑائی دس گھنٹے جاری رہی اور آخرِکار شہرِ میرپور کی مکمل تسخیر پر ختم ہوئی۔ میرپور کی فتح کے بعد 28 نومبر 1947ء کو ریاستِ دیر کی فوج نے میرپور سے آگے پیرکلے میں قیام کیا۔ وہاں پونہ سے ہوتے ہوئے بمقام "بید” قیام پذیر ہوئے۔ بید سے مخالفین کا فوجی ہیڈکوارٹر "دھرمسالہ” ایک میل کے فاصلہ پر تھا۔ دھرمسالہ کا فوجی ہیڈ کوارٹر کئی ایک مضبوط مورچوں میں گِھرا ہوا تھا، جس میں متلاشی، سریا اور مکڑی کے مورچے مضبوطی کے لحاظ سے مشہور تھے۔ ان مورچوں کی موجودگی میں مذکورہ فوجی ہیڈکوارٹر پر حملہ کرنا مشکل کام تھا۔
8 دسمبر 1947ء کو میدان اور دیر خاص کا ایک اور فوجی دستہ روانہ ہوا۔ اولین دستہ بدستور "بید” میں قیام پذیر تھا۔ خیال یہ کیا جا رہا تھا کہ نیا فوجی دستہ پہنچنے کے بعد دھرمسالہ پر حملہ کیا جائے گا، لیکن ایک طرف بید تک پہنچنے کا راستہ انتہائی مشکل تھا، تو دوسری طرف مخالف فوج بھاری کمک کے ساتھ ضلع راجوڑی کے شہر نوشہرہ پہنچ چکی تھی۔ جہاں سے کوٹلی کی طرف پیش قدمی کرنے اور میرپور خاص پر حملہ کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ لہٰذا ریاستِ دیر کی فوج نے دوسرے دستے کا انتظار کیے بغیر ہی موجودہ حملے کی تیاری شروع کی۔ متذکرہ مورچوں میں متلاشی مورچوں کا سلسلہ مضبوط اور اہم تھا۔ اس مورچہ میں مشین گنوں کی پوری ایک بٹالین موجود تھی۔ مورچے میں موجود سکھ فوجیوں نے ایک دوسرے کو آہنی زنجیر سے باندھا ہوا تھا، تاکہ بھاگنے کا سوال ہی پیدا نہ ہو۔
ریاستِ دیر کی فوج نے 24 دسمبر کی صبح متلاشی مورچہ پر حملہ کیا۔ یہ لڑائی چھے گھنٹے جاری رہی۔ دیر کی فوج جان کی بازی لگاتے ہوئے شہید ہوتی گئی۔ آخرِکار متلاشی کے مورچے پر بھی ریاستِ دیر کی فوج کا قبضہ ہوا۔ دوسری طرف ڈوگرہ فوج جس سے دیگر قبائل اور آزاد کشمیر کے مجاہدین نبرد آزما تھے، متلاشی کی تسخیر کی خبر سن کر بھاگ نکلے۔ اس لڑائی میں ڈوگرہ فوج کی 80 فی صد موٹر، لاریاں اور مال و متاع کو قبضہ کیا گیا۔

ریاستِ دیر کی فوج علاقہ قبضہ کرنے کے بعد پرچم اٹھائے ہوئے۔ (فوٹو: محمد وہاب سواتی)

اس طرح دریائے جہلم کے کنارے واقع منگل کوٹ نام کا ایک قلعہ تھا، جسے کشمیر کی فوج ایک ماہ کی لڑائی کے باوجود فتح نہ کرسکی۔ ریاستِ دیر کی فوج نے کشمیری فوج کے ساتھ مل کر اس قلعہ کو فتح کیا۔ قلعہ میں موجود سکھ اور ہندو دریائے جہلم میں کود کود کر ہلاک ہوگئے۔
متلاشی کے مورچہ کو فتح کرنے کے بعد ریاستِ دیر کی فوج کے کمانڈر عبداللہ جان زخمی ہوئے تھے۔ ان کی جگہ تحصیل دار حضرت علی کو کمانڈر مقرر کیا گیا۔ دوسری طرف دیر کی فوج میں شہدا کی وجہ سے کافی کمی آئی تھی۔ لہٰذا دھرمسالہ میں قیام پذیر رہنے کو ترجیح دی گئی۔ حتیٰ کہ 21 جنوری 1948ء کو ریاستِ دیر سے تیسرا فوجی دستہ روانہ ہوا۔ یہ دستہ علاقہ براول اور جندول کے رضاکاروں اور ریاستی ملازمین پر مشتمل تھا، جس کی کمان صوبیدار میاں عبدالغفار کو سونپی گئی تھی، ساتھ ملک رحیم اللہ جان نائب کمانڈر مقرر تھے۔ یہ دستہ 24 جنوری 1948ء کو دھرمسالہ پہنچ گیا اور دو دن قیام کے بعد رائے پور کی طرف روانہ ہوا۔ جہاں سے نوشہرہ پر حملہ کی تیاری شروع ہوئی۔ نوشہرہ کے قریب شمال کی طرف ایک پہاڑ کی چوٹی "ٹائی” پر نوشہرہ کے فوجی ہیڈکوارٹر کی حفاظت کے لیے تین مضبوط مورچے تھے۔ 5 فروری 1948ء کی رات کو دیر کی فوج رائے پور سے روانہ ہوکر باٹا کے مقام پر جو ٹائی کے دامن میں واقع تھا، پہنچی اور وہاں سے علی الصباح تینوں مورچوں پر بیک وقت حملہ کیا گیا۔ پہلے مورچہ پر براول کے دستہ نے حملہ کیا، جس کی کمان صوبیدار میجر گل ملا خان کی ہاتھ میں تھی۔ دوسرے مورچہ پر رحیم اللہ خان کے دستہ نے حملہ کیا، اور تیسرے پر جندول اور باجوڑ کا دستہ صوبیدار سید محمود جان کی کمان میں حملہ آور ہوا۔ ٹائی پر حملہ بہت مشکل اور نقصان دہ ثابت ہوا۔ اس لڑائی میں دیر کی فوج کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ براول کا دستہ اپنے کمانڈر سمیت مورچہ کے اندر پہنچنے میں کامیاب ہوا تھا، لیکن سب مورچہ کے اندر ہی شہید ہوئے۔ دوسرے اور تیسرے مورچہ تک دیر کی فوج کی رسائی نہیں ہوئی۔
مخالف فوج کی بے پناہ گولہ باری کی وجہ سے کمانڈر میاں عبدالغفار بری طرح زخمی ہوئے۔ لڑائی رات تک جاری رہی اور دیر کی فوج زخمی اور شہید ساتھیوں کو ساتھ لیے واپس لوٹی۔ صوبیدار میجر گل ملا خان اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ مورچہ تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ ان کو مزید مدد نہ ملی اور ساتھیوں سمیت مورچہ کے اندر لڑتے ہوئے جان کی بازی ہار گئے۔
ٹائی کی لڑائی میں دیر کے مجاہدین کی شکست غیر متوقع تھی۔ مخالف فوج کی کامیاب جاسوسی کی وجہ سے دیر کی فوج شکست سے دوچار ہوئی۔ دیر کی فوج تلواروں اور کلہاڑیوں سے رات کی تاریکی میں حملہ کرتی تھی، جس سے دشمن کو حملے کی سمت کا پتا نہیں چلتا تھا، لیکن ٹائی میں دشمن کو دیر کی فوج کے نقل و حمل کا پورا پورا علم تھا۔
ریاستِ دیر کی فوج دھرمسالہ میں قیام پذیر ہوگئی تھی۔ اسی اثنا میں دشمن نے افواہ پھیلائی کہ نوشہرہ سے دشمن کی پیش قدمی ہو رہی ہے۔ دیر کی فوج چوں کہ زیادہ تر زخمیوں پر مشتمل تھی، اور اکثریت جامِ شہادت نوش کر چکی تھی۔ وہ اس قابل نہ تھی کہ دشمن کا مقابلہ کرسکے۔ افواہ کی وجہ سے دیر کی فوج میرپور اور جہلم لوٹنے لگی۔ جب مخالف فوج کو دیر کی فوج کی پسپائی کا یقین ہوگیا، تو اس نے پیش قدمی کی اور مقبوضہ علاقوں کو دوبارہ قبضہ میں لیا۔ دیر کی فوج کی مدد کے لیے مزید دستے پہنچ گئے اور ذکر شدہ علاقوں کو دوبارہ فتح کیا گیا۔ یہاں تک کہ جنگ بندی کا اعلان ہوا اور نتیجتاً یہ سلسلہ رُک گیا۔
کشمیر کی لڑائی میں مجموعی طور ریاستِ دیر کے جاں بازوں نے پھرپور حصہ لیا۔ دیر کی فوج کی مجموعی تعداد 16 سو تا 2 ہزار رہی، جو مخالف فوج کے مقابلہ میں انتہائی کم تھی۔ قلیل تعداد کے باوجود دیر کی فوج نے میرپور سے نوشہرہ تک کا علاقہ فتح کیا۔
قارئین، پوری ریاستِ دیر میں کوئی ایسا گھرانا نہیں تھا، جہاں کسی عزیز نے اپنوں کو داغِ مفارقت نہ دیا ہو۔ ایک غیر ملک کے راستوں سے ناآشنا ہو کر بھی حکومتِ ہند کے جدید ترین آلاتِ جنگ سے لیس فوج کو محض تلواروں اور کلہاڑیوں سے زِچ کیا، یہ واقعی معمولی بات نہیں تھی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جنگِ آزادیِ کشمیر میں ریاستِ دیر کے مجاہدین نے سچے مسلمانوں کی حیثیت سے خالص اسلامی جذبۂ جہاد کے تحت استقلال، مردانگی اور جرأت کی مثال قائم کی ہے۔

کتابیات:

Special Branch  Daily Dairy, 15 October 1947: Bundle No. 50, S.no. 816

"گمنام ریاست” از سلیمان شاہد۔

"ریاستِ دیر تاریخ کے آئینہ میں” از حبیب الرحمان حبیب۔

Qaiyum Khan and the war of Kashmir, 1947-48 by Syed Minhaj ul Hassan

……………………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔