اکبر چوگان کھیلنے کا بہت شوقین تھا۔ ابوالفضل اس کھیل کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے: ’’اس کھیل میں انسان کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوتا ہے اور باہمی محبت کا رشتہ مضبوط ہوتا ہے۔ مضبوط اور طاقت ور انسان اس کھیل سے مشتاق شاہ سوار بنتے ہیں اور گھوڑوں میں اطاعت پذیری و چستی و چالاکی پیدا ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں پناہ اس مشغلہ کو بے حد پسند فرماتے تھے۔ قبلہ عالم اس کھیل میں مشغول ہوکر بظاہر تو عظمت و جاہ میں اضافہ فرماتے ہیں، لیکن حقیقت میں بنی نوع انسان کے مخفی خصائل و عادات سے واقفیت وآگاہی حاصل فرماتے ہیں۔‘‘
اکبر نے اس کھیل کے قاعدے و قوانین مقرر کیے تھے، مثلاً کھیل سے پہلے کھلاڑیوں کو منتخب کیا جاتا تھا۔ عام طور سے ان کی تعداد دس ہوا کرتی تھی۔ دستور یہ تھا کہ ہر بیس منٹ بعد دو کھلاڑی علیحدہ ہوجاتے تھے اور ان کی جگہ دوسرے دو کھلاڑی لے لیتے تھے۔ کھیل میں مزید دلچسپی پیدا کرنے کے لیے اس پر شرط بھی لگائی جاتی تھی۔
اکبر کو اس کھیل سے اس قدر دلچسپی تھی کہ اس نے ایک چمک دار گیند ایجاد کی تھی، تاکہ رات کی تاریکی میں بھی اس سے کھیلا جاسکے۔
چوگان کھیلنے کی اسٹیکوں پر سنہری کڑے لگے ہوئے تھے۔
(’’مغل دربار‘‘ از ’’ڈاکٹر مبارک علی‘‘، مطبوعہ ’’تاریخ پبلی کیشنز لاہور‘‘، صفحہ نمبر 90 اور 91 سے انتخاب)