مینگورہ، صرف پاکستان کے وادئی سوات کا نہیں، پورے ملاکنڈ ڈویژن کا مرکزی شہر ہے۔ دریائے سوات کے دامن میں پلے بڑھے اِس شہر پر دریا کی روانی کا، اس کے حسن و جمال کا اور موسمی تغیر و تبدل کی چھاپ کبھی نمایاں تھی، مگر اب نہیں ہے۔ اب تو بم بارود کے بے رحم کھلواڑ نے یہاں کا وہ سب کچھ ڈکار کر نوحہ خوانی کی لاتعداد داستانیں رکھ چھوڑی ہیں۔ یتیم یسیر، معذور و اپاہج چھوڑے ہیں اور ذہنی طور پر مفلوج و گُم صم بھیڑ بھاڑ چھوڑا ہے۔ پختون خوا میں یوسف زئی قبیلہ کے دو جانے پہچانے شہروں میں دوسرے درجے پر اگر کوئی شہر فائز ہے، تو وہ یہی مینگورہ ہے۔ پہلے درجے کا دعویدار مردان ہے، جس کے سامنے اپنا بھی سرِ تسلیم خم ہے۔ پھلوں میں آڑو، پرسیمن اور سیب کی مرکزی منڈی مینگورہ جانی جاتی ہے۔ زمرد جیسے قیمتی پتھر کی نام نہاد کان اس شہر کے شمال میں واقع ہے، جو اِس شہر اور دریا میں آلودگی پھیلانے کا ٹھیکا بے شک لیے بیٹھا ہے، وہ بھی کسی مثبت مصرف کے بغیر۔ اِس کی آڑ میں ہزاروں ایکڑ زمین سرکار نے سرکار کے نام پر ہتھیائی ہے ۔ عام لوگوں میں قبضہ مافیا کے راج و رواج کا سنا تھا، ریاستیں بھی مافیا ئی عمل کا حصہ ہوتی ہیں، یہ کوئی یہاں آ کر دیکھے اور سیکھے۔گنتی کو تو لگ بھگ بیس بائیس لاکھ کا مجمع سانس لے نہ لے، کاربن ڈائی اکسائیڈ ضرور پھونکتا رہتا ہے پوری وادی میں، لیکن بات کرنے کو، کام کرنے کو اور یاد کرنے کو چند ہی لوگ ہیں، جن سے دِل چاہتا ہے کہ ملا جائے اور بات کی جائے۔ ایسے ایک بندے سے آج ہی مختصرملاقات کا شوق ہوا چاہتا ہے، جو اس بے نواشہر کے یتیموں اور معذوروں کا خادم ہے۔ اُن کا اَن داتا ہے، موڈ ہو، تو چلوملتے ہیں!
مینگورہ سیدو شریف روڈ پر مکان باغ چوک سے تھوڑا آگے ایک تنگ سے کوچے میں بائیں ہاتھ ’’ٹرن‘‘ لیں اور فوری دائیں طرف مڑیں۔ سب سے پہلے دائیں طرف سوات پریس کی بلڈنگ نظر آتی ہے، جہاں ہمارے صحافی او ررپورٹر حضرات صبح و شام بیٹھے اپنا رونا بھی روتے ہیں، عوام کا بھی، گرانی، بد امنی اور بد نظمی کا بھی روتے ہیں۔ لیکن اُن کے اداروں کے اکثر مالکان اُن کی بات سنتے ہیں، نہ خلقِ خداکی۔ وہ صرف اپنا سودا (اخبار) بیچنے کا سوچتے ہیں جو سرکار کے اشتہاروں پہ چلتا دوڑتا ہے، اللہ اللہ خیر صلا۔ تھوڑاسا آگے دائیں طرف ایک اور وسیع و عریض عمارت واقع ہے۔ اس کی چوکھٹ پر درج ہے ’’خپل کور فاؤنڈیشن۔‘‘ اس ادارے کے بورڈ آف گورنرز میں کئی دردِ دل رکھنے والی مخلص شخصیات بڑی جاں فشانی، محنت اور ایمان داری کے ساتھ ترقی کے عمل میں مصروف ہوں گے مع کارکناں، لیکن ہم جب اس راستے سے گذرتے ہیں، تو یہاں کام کرنے والے ایک فقیر کو ضرور یاد کرتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ وہ یہاں کم اور باہر زیادہ پائے جاتے ہیں۔ محوِ حیرت ہیں، یہ انسان ہے یا کوئی جن۔ بھاری بھر سوا سو کلو وزنی اور پچاس کے پیٹے میں داخل یہ مردِ مومن آج انگلینڈ میں ہیں، اگلے ہفتے امریکہ، کبھی سعودی، تو کبھی دبئی میں کچکول اُٹھا ئے بھکاریوں کی طرح گھومتے پھرتے دیکھے جاتے ہیں۔ اِس شخص کو ایک بیماری لاحق ہے، یہ بیٹھتے اور بولتے کم اور چلتے پھرتے، روتے دھوتے زیادہ ہیں۔ اس کے بس میں ہو، تو یہ گہری نیند میں بھی اپنے کام کو لگام نہ دیں۔ انہوں نے زندگی میں دولت کمانے کے، ناز نخروں کے اور فرعونیت کے فائدے دیکھے، نہ استحقاق سیکھا، وگر نہ یہ بھی دوسروں کی طرح زندگی کے مزے لے رہے ہوتے۔ انہوں نے سیکھا، تو محروم طبقوں کے دکھوں کا مداوا کرنے کا فکرو خیال سیکھا، اور خدمت کرنا سیکھا۔

سوات سکاوٹس اوپن گروپ کے بانی ممبر اور خپل کور ماڈل سکول کے ڈائریکٹر محمد علی۔ (فوٹو: فضل خالق)

نادرا کے ریکارڈ میں درج ہے کہ اپنے بچوں کے علاوہ یہ کوئی آدھ سیکڑہ ایسے بچوں کے بھی والی وارث بنے بیٹھے ہیں، جن کا خدا کی اِس وسیع دنیا میں کوئی اور نہیں۔ کوئی چارسو یتیم بچے بچیوں کو بیک وقت رہنے سہنے، کھانے پینے، سیکھنے پڑھنے اور اخلاقی تربیت کی سہولت کیسے فراہم کی جاتی ہے، اور وہ بھی باوقار طریقے سے، یہ کوئی اس مردِ درویش سے سیکھے۔ ہاسٹل کے علاوہ کئی بچے ابھی ابھی بنے ’’خپل کور ولیج‘‘ میں بھی رہائش پذیر ہیں۔ اس ولیج کا ایک حصہ مکمل ہے، جب کہ باقی پر کام جاری ہے۔ دو سو یتیم بچے ڈے سکالرز ہیں، جن کو ’’پِک اینڈ ڈراپ‘‘ کی سہولت کے علاوہ 16 سو سے 2 ہزار روپے نقد ماہانہ کھانے پینے کے اخراجات کے لیے بھی ملتے ہیں۔ ایف اے، ایف ایس سی تک تعلیم تو یہاں مفت دی جاتی ہے، جب کہ اعلیٰ تعلیم کے لیے بلاسود قرضہ دیا جاتا ہے، تعلیم کی تکمیل اور نوکری کے حصول کے بعد ہر بچہ یہ قرضہ ادارے کو بہ خوشی واپس ادا کرتا ہے قسطوں میں۔
اس بھکاری کے کئی ’’برخوردار‘‘ ڈاکٹرز، انجینئرز، وکیل اور دیگر اہم عہدوں تک پہنچ چکے ہیں اور کئی اندرون و بیرونِ ملک کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیرِ تعلیم ہیں۔ اِن سرگرمیوں کو پروان چڑھانے میں کئی علاقائی اور بین الاقوامی سماجی ادارے اور شخصیات آنکھیں بند کرکے باقاعدہ طور پر اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ کیوں کہ اُن کو مکمل یقین ہے کہ جو مالی مدد وہ اس ادارے کو فراہم کر رہے ہیں، وہ صاف و شفاف نظام کے تحت ایک نیک مقصد پر خرچ ہو رہا ہے۔ سوات کے یتیموں یسیروں کے اس مسیحا کو ایک دنیا ’’محمد علی‘‘ کے نام سے جانتی ہے۔ ہم تو اُن کو ’’ملگرے‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں، دوست ’’حاجی صاحب‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں، جو اس کو پسند نہیں، شرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس خطاب سے آدمی معمر سابھی لگتا ہے اور پرہیزگار سابھی ۔ ہم اُن کی تعریفوں کا پُل کیوں باندھیں۔ اُن کی شکل ہی اُن کی سادگی، ایمان داری، خدمت ِ خلق اور خلوصِ نیت کے جذبے سے عبارت ہے۔ ان کی شکل ایک ستھرے سے بھکاری کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔ یہ کوئی لائف سٹائل جانے، نہ ناز و نخرے۔ یہ کسی نام و نمود کے طلب گار ہیں، نہ شہرت و عظمت کے دلدادہ۔ یہ اِس وادی کی بیواؤں اور بے سہارا خواتین کے لیے ایک سہارا ہیں۔ یہ عاشق مزاج شخص اچھے بھلے دل پھینک بھی ہیں۔ ہماری بھابھی کے علاوہ اور کسی کی بات سنتے ہیں، نہ مانتے ہیں۔ بھابھی ہی کی فرمائش پر وہ غریب اور نادار لڑکیوں کی شادی بیاہ اور جہیز کی مفت فراہمی ممکن بنانے کے لیے بنیادی ڈیٹا جمع کر رہے ہیں۔ ہم بجا طور پر یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ کہیں ہر کامیاب مرد کے پیچھے اُس کی بیوی کا ہاتھ تو نہیں ہوتا۔
یہ ہر کام توکل سے شروع کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ توکل سیکھنا ہو، تو پرندوں سے سیکھو، جو شام کو گھونسلے میں جاتے ہیں، تو ان کی چونچ میں کل کے لیے کوئی دانہ نہیں ہوتا، لیکن متنوع نعمتوں سے بھرپوراللہ تعالیٰ کی یہ لامحدود کائنات کل بھی اُن کے لیے اسی طرح دستیاب ہوتی ہے، جیسے کل تھی۔ اُن کا کام بھی اسی طرح توکل پر چل رہا ہے، کل کا سوچے بغیر اور شان دار چل رہا ہے۔ بے بس اور بے سہارا لوگوں کی بات کرتے ہیں یا سنتے ہیں، تو دھاڑیں مار مار کر روتے ہیں۔وہ اپنی زندگی میں کوئی کشش محسوس نہیں کرتے، سوائے خدمت کی کشش اور جذبے کے۔ باقی ہر قسم کے جذبوں سے یہ عجیب انسان ماورا ہے۔
یہ جس بھی کام میں ہاتھ ڈالتے ہیں، اللہ تعالیٰ اُس کی بھر پور رہنمائی فرماتا ہے اور لوگ اُسے ہر قسم کی مدد و تعاون فراہم کرتے ہیں۔ کیوں کہ حاجی محمد علی ایک ایسے ’’مصدقہ بھکاری‘‘ ہیں اس وادی کے، جو لاچار اور بے بس لوگوں کی فلاح و بہبود اور اُن کی زندگی میں بہتری لانے کے لیے خیرات مانگتے پھرتے ہیں۔ ہم نے پاکستان کے درویشِ اول عبدالستارایدھی کی ملنگی کادور دورہ دیکھا ہے۔ پنجاب کے آصف محمود جاہ کی خیرو برکت کے کاموں میں بھاگ دوڑ دیکھ رہے ہیں، لیکن ہمارے حاجی بھکاری کسی سے کم ہیں کیا؟ فیض احمد فیضؔ کے یہ اشعار اُن پر کتنے جچتے ہیں، یہ ہم سے بہتر کون جانے!
ضبط کا عہد بھی ہے شوق کا پیمان بھی ہے
عہد و پیماں سے گزر جانے کو جی چاہتا ہے
درد اتنا ہے کہ ہر رگ میں ہے محشر برپا
اور سکوں ایسا کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے
وضاحت و تصحیح:۔ 21 مارچ 2019ء کی اشاعت میں انہی سطور میں ’’کاکو جان‘‘ کے عنوان سے شائع ہونے والی ایک تحریر میں غریب اور نادار مریضوں کے حوالے سے لکھی گئی باتوں سے متعلق جو تاثر پھیلا، اُس کے متعلق ضروری وضاحت و تصحیح اپنے اوپر لازم سمجھتا ہوں۔ یہ کہ کاکو جان کے نام پر کوئی فری ہسپتال یا ڈسپنسری وادئی کوکاری میں موجود نہیں۔ وہ اوراُن کے ساتھی اپنی بساط کے مطابق غریب اور نادار مریضوں کو نجی ہسپتالوں یا ڈاکٹروں کو علاج کے لیے ریفر کرتے ہیں اور ممکن حد تک اُن کے اخراجات کی ادائیگی کی ذمہ داری خود اُٹھاتے ہیں یا پھر اُن کے دوست۔ یہاں پر واقع ایک پرائیویٹ میڈیکل سنٹرکے علاوہ سرکاری مرکزِ صحت کے ڈاکٹر محمد ریاض خان اور صحت کے شعبے سے منسلک دیگر افراد اس سلسلے میں اُن کی بھرپور حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور مناسب رہنمائی و تعاون بھی فراہم کرتے ہیں، جو ایک قابلِ تعریف عمل ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو مخلوقِ خدا کے لیے آسانیاں پیدا کرنے اور انہیں تقسیم کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!

………………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔