شہنشاہ نصیر الدین ہمایوں کے عہدِ حکومت میں شیخ عبدالرزاق مکیؒ لاہور تشریف لائے۔ آپ کی وفات کے بعد عقیدت مندوں ایک پختہ گنبد تعمیر کروایا۔ مقبرے کے ساتھ ہی ایک دلکش باغ اور وسیع مسجد بھی بنوائی۔ سکھ عہد میں باغ کو برباد کر دیا گیا۔ مقبرے کو بارود خانے کے طور پر استعمال کیا جانے لگا اور حجروں میں رہائش رکھی گئی۔ انگریزوں نے مذکورہ مسجد کو ہوٹل میں بدل دیا۔ یاد رہے کہ اس وقت یہ علاقہ چھاؤنی کا حصہ تھا۔ جب چھاؤنی میاں میر منتقل ہوئی، تو مفتی نجم الدین نے اس مسجد کو واگذار کرایا۔ مقبرہ کے نیلے گنبد کی نسبت اس مسجد کو "مسجدِ نیلا گنبد” کہا جاتا ہے۔
((کتاب "لَہور، لَہور ہے” از عبدالمنان ملک، صفحہ نمبر 79 سے انتخاب)