جس سوات میں ہم اور تم زندگی گزار رہے ہیں، یہ وہ سوات نہیں ہے جو ہمارے بچپن میں تھا، جو والیِ سوات کے دورِ حکومت میں تھا۔ ہاں، وہ دور اور تھا، یہ دور اور ہے۔ اُس دور میں خوشحالی تھی، سکون تھا، آرام اور اطمینان تھا۔ اِس دور میں بے سکونی اور پریشانی ہے۔ اُس دور میں اپنائیت تھی، اِس دور میں اجنبیت ہے۔ جب سوات میں والی کی حکمرانی تھی، تو یہ اہلِ سوات کے لیے تھا۔ وہ ہمارا اپنا سوات تھا جب کہ الحاق کے بعد پرایا ہوگیا ہے۔ 1969ء میں ادغام کے بعد گویا ہمارا جنت نظیر سوات کہیں کھو گیا ہے۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اپنے اپنے ہوتے ہیں اور پرائے پرائے۔ والیِ سوات ہمارا اپنا تھا۔ سوات اُن کا تھا۔ اس لیے دن رات اُن کی حکمرانی میں یہ ترقی کی جانب رواں دواں تھا۔ پورے سوات میں اعلیٰ درجے کا تعلیمی نظام تھا۔ جگہ جگہ سکول اور کالج تھے۔ تعلیم مفت، علاج مفت، اعلیٰ معیار کے اسپتال اور اعلیٰ درجے کے ڈاکٹر تھے۔ علاج مفت، ادویہ مفت، اسپتالوں میں مریضوں کے لیے کھانا مفت۔ اس کے علاوہ انصاف بھی فوری اور مفت، نہ کورٹ کے چکر، نہ وکیل کے نخرے۔ سوات کے ہر باشندے کے لیے باعزت روزگار کے مواقع ہر وقت دستیاب ہوا کرتے تھے۔
قارئین، ریاستِ سوات کی جتنی بھی تعریف کروں، کم ہی ہوگی، لیکن اب مَیں اصل بات کی طرف آنا چاہتا ہوں۔ ریاستِ سوات کے آخری بجٹ کی کاپی سال 1969ء اور 1970ء میرے پاس موجود ہے، لیکن آج کل ایک نایاب کتاب "نورِ کہستان” یعنی سرگذشت و خودنوشت میجر صاحبزادہ نور محمد شاہ کوہستانی مع حالات پارینہ افغانستان و کشمیر از فیروز سنز پشاور سال 1957ء میرے زیرِ مطالعہ ہے۔ اس کتاب میں صفحہ نمبر 237 پر بہ عنوان "ریاستِ سوات” صاحبِ کتاب لکھتے ہیں: "کسی قوم کی ترقی اور عروج کی بنیادیں دراصل اس قوم کی ذہنی صلاحیتوں پر قائم ہوتی ہیں۔ قوم کے افراد کی ذہنی صلاحیتیں اسی وقت اجاگر ہوسکتی ہیں۔ جب ان کو صحیح تعلیم و تربیت دینے کے ساتھ ساتھ ان کے روحانی قویٰ کو بھی بیدار کیا جائے۔ اس کام کے لیے صالح قیادت اور صحیح رہنمائی کی ضرورت ہے۔ ایک ایسے ہمدرد ملت اور بہی خواہ قوم اور شخصیت کی ضرورت ہے، جو ذاتی اقتدار اور خاندانی شرافت کے ساتھ تعلیمی قابلیت، انتظامی استعداد اور خداداد ذہانت کی بھی مالک ہو۔ موجودہ دور میں ریاستِ سوات، زندگانی کے شعبہ اور مدنیت کی ہر مد میں جو روز افزوں ترقی کر رہی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے انتظام و اہتمام کی باگ ایک ایسے تعلیم یافتہ اور بیدار مغز والی کے ہاتھ میں ہے، جو سیاسی تدبر، مصلحت کوشی، عوام کے ساتھ ہمدردی اور محبت رکھنے میں عالمگیر شہرت کا حامل ہے۔ اس حقیقت سے کسی بالغ نظر انسان کو مجالِ انکار نہیں کہ موجودہ والی صاحب میجر جنرل جہاں زیب غازیِ ملت باقاعدہ طور پر روزانہ اپنے دفتر میں آکر ملکی، مالی اور سیاسی امور کے تصفیہ اور انصرام میں پورا پورا وقت صرف کرتے ہیں۔ ریاست بھر کے مقدمات کا آپ ہی کی زیرِ نگرانی تصفیہ ہوتا ہے۔ آپ چوں کہ خود دفتری اوقات کی شدت سے پابندی کرتے ہیں، اس لیے دفتری نظام میں ذرہ برابر بھی بدنظمی، سستی، اقربا پروری اور رشوت ستانی راہ نہیں پاسکتی۔ مقدمات کے تصفیے کے لیے اجرتی وکیلوں، کچہریوں کے اہلکاروں اور گواہوں کو رضامند کرنے کے لیے کوئی ناجائز رقم خرچ کرنی نہیں پڑتی۔ کورٹ فیس اور اشٹام پر کوئی غیر ضروری خرچ کرنا نہیں پڑتا۔ اس کے ثبوت میں سوات مشاورتی کونسل کے بجٹ سیشن کی کاروائی جو والی صاحب سوات صدر کونسل کے تحت صدارت مورخہ 4 اور 5 اپریل 1956ء کو سیدو شریف میں منعقد ہوا تھا، درج کرنا کافی ہوگا۔ چوں کہ والی صاحب موصوف خود حالاتِ حاضرہ اور قومی ضروریات سے پوری واقفیت رکھتے ہیں۔ آپ نے حکومتِ پاکستان میں اسلامی دستور اور قیامِ جمہوریت پر ایک سیر حاصل تبصرہ کیا۔ جمہوریہ پاکستان کے ایک ضروری اور اہم جزو ہونے کی حیثیت میں ریاستِ سوات کوجس قدر اقتصادی، معاشرتی اور سیاسی خوشحالی حاصل ہوگی اور اجتماعی طور پر اس ملک میں جو تعلیمی اور روحانی اقتدار اور استحکام پیدا ہوگا، اس پر آپ نے اپنی دلی مسرت کا اظہار فرمایا۔ بجٹ پیش کرتے ہوئے آپ نے میجر جنرل اسکندر مرزا صاحب کے پہلے صدر جمہوریہ پاکستان منتخب ہونے کی خوشی ظاہر کی، اور اس انتخاب کو ملتِ پاکستان کے لیے ایک فالِ نیک قرار دیا۔ آپ نے یقین ظاہر فرمایا کہ صدرِ مملکت اپنے آہنی عزم و ارادہ اور بہترین سیاسی تدبر اور ہمت کے ساتھ پاکستان کے لیے اقوام و مللِ عالم کی پہلی صف میں ایک ممتاز مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ نے پاکستان کے وزیراعظم صاحب کی ان شان دار خدمات کی بھی تعریف کی جو موصوف نے اسلامی دستور کی تکمیل کے لیے سرانجام دی تھیں۔ آپ نے فرمایا کہ وزیراعظم صاحب، یہ کارنامہ ایک عظیم الشان تاریخی کارنامہ ہے جس کے لیے آئندہ نسلیں ان کا شکریہ ادا کریں گی۔
والیِ سوات چوں کہ ایک باہمت جوان حکمران ہیں جن کے دل میں قومی درد، ملت کی فلاح و بہبود اور ملی غیرت و حمیت کا بے پناہ جذبہ موجزن ہے۔ آپ نے مسئلہ کشمیر کے متعلق مسٹر نہرو کے اعلان کی بے حد مذمت کی۔ آپ نے فرمایا کہ ریاستِ سوات نے جہادِ کشمیر کے زمانے میں اس سے قبل بھی اپنے کشمیری بھائیوں کو ہندوستانی مظالم سے نجات دلانے کے لیے ہر قسم کی مالی و جانی امداد بہم پہنچائی تھی۔ اب بھی جب تک مسلمانانِ کشمیر کو ان کا حقِ خود ارادیت مکمل طور پر نہ دیا جائے، وہ اپنی کوششوں کو برابر جاری رکھیں گے۔
بجٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے آپ نے ممبران کونسل کو تاکید کی کہ ریاست کی خدمت ایک ایسا مقدس فریضہ ہے جو آپ لوگوں کے لیے بھی اسی قدر اہم، اسی قدر ضروری اور اسی قدر واجب الاحترام ہے، جس قدر میرے لیے ہے۔ اس لیے آپ میری اپنی مشترکہ ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے بجٹ میں ترمیم و تنسیخ یا اضافہ کے لیے اپنی رائے پیش کریں۔
بجٹ کا خلاصہ یہ ہے:
1:۔ آمدنی 6329000 روپے۔
2:۔ خرچ 6101000 روپے۔
3:۔ بچت 228000 روپے۔”
قارئین! اس بجٹ سے آپ اندازہ لگالیں کہ ریاست سوات ایک خود کفیل ریاست تھی۔ ہمیں حکومتِ پاکستان کی ایک پیسے کی ضرورت نہیں تھی۔ اس کے باوجود یحییٰ خان کے پیٹ میں مروڑ اُٹھا اور 1969ء کو اُس نے ریاست کو پاکستان میں ضم کیا۔ اب بھی اگر حکومتِ پاکستان چاہے، تو ہم ریاستِ سوات کی بحالی کی صورت میں اپنا ریاستی خرچہ اور جملہ اخراجات اپنے سوات کے وسائل سے پورا کرسکتے ہیں اور سوات کو پھر سے ترقی کی راہ پر گامزن کرسکتے ہیں۔ بس، آزمائش شرط ہے۔
قارئین، اُس وقت سونے کا بھاؤ کیا تھا؟ شاید 80 روپے فی تولہ جب کہ اب یہ 70 ہزار روپیہ فی تولہ ہے۔

…………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔