سولہ آنے سچ کہیں، چونسٹھ پیسے یا پھر سو عدد ٹیڈی پیسا! حیرت میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں، سچ یا جھوٹ لکھنے، بولنے اور سننے کی مقدار کودیسی سکوں کے ساتھ ’’ایکویٹ‘‘ کیا جانا عام سی بات ہے۔ یہ کیا، اب تو دوَر ہے کالے سچ کا، میٹھے جھوٹ کا اور کڑوے ’’ففتھ جنریشن وار لابی‘‘ کا اور فی امان اللہ کا بِگل بجانے کا عزمِ مصمم کیے ہوئے ’’عزیز ہم وطن والوں‘‘ کا۔ ’’عقل مند لہ اِشارہ!‘‘ سو سوال تو بنتا ہے۔ ہاں، اگر بات سولہ آنے سچ کہہ دیں، تو یہ کہ عمر بھر کوئی ڈھنگ کا کام ہی نہیں کیا سِوائے اِس کے کہ بنجاروں کی طرح گھومے گھامے، اور بس۔ اونچی اونچی چٹانوں کے کمر پرچڑھتے دوڑتے، چوٹی پرپہنچتے، تودم لیتے۔ یہ گئے گذرے دنوں کی باتیں ہیں، جس پرفخر کرنے کی کوئی گنجائش تو خیرنظر نہیں آتی، لیکن لکھنے میں حرج کیا ہے! سائیکل اگرہمارے گھر میں ’’گھر داماد‘‘ کی حیثیت میں رہی، تو باہمی مساوات کے جذبے کے تحت موٹر سائیکل کو بھی ’’گھرکا غلام‘‘ بنایا، جس کے بیک پر بیٹھ کر اور چلانے والے کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر سوات سے پشاور، صوابی یا مردان تک جانا تو بچکانہ بات، ڈیرہ اسماعیل خان تک بھی جا پہنچتے۔ سواری میں صرف ایک بے چارے گدھے کے کندھے ہمارے بوجھ سے بچے رہے، جس کا افسوس ہے! لیکن گدھا گاڑی تو گدھا گاڑی ہے، جو بہرحال اپنی مرغوب سواری ہے، بلاشرکتِ غیرے۔ کراچی کے ساحلِ سمندر پر اونٹ کی پیٹھ پربیٹھنے کے لیے بڑے پاپڑ بیلنے پڑے۔ ریڑھی و رکشے، لاری اور ریل، بس، ٹرک، ویگن، کشتی، فیری، جہاز اور نہ جانے مزیدجو بھی چرخی مشینوں کے ذرائعِ نقل و حمل کسی کو یاد ہیں، آج کل کے چنگ چی نامی ہوائی شٹل اور اُڑن کھٹولا سمیت، تو وہ اپنے ذہن کے ڈیسک میں ڈالیں اور یقین جانیں کہ وہ تمام ذرائعِ سفر ہم نے استعمال کیے ہوں گے۔ وطن کیا، کئی ریاست ہائے مسلم اُمّہ و ’’غیر مسلم اُمّہ‘‘ بھی پہنچے، وہ بھی بُلائے مہمان بن کر۔ زندگی کی گاڑی ’’چلتی کا نام گاڑی ہے‘‘ کے مصداق چلتی رہی اور ہر وقت ہر جگہ خدا کی بے پایاں مہربانیاں اور رحمتیں سمیٹیں۔ اِدھر نشہ باز گروہوں کے مرغولوں میں پھنسے، اُدھر فتنہ بازوں کے ٹولے سے برسرِپیکار ہوئے، یہ لو علم بازدوستوں کے ساتھ اٹیچ ہوئے، وہ دیکھو تبلیغی بھائیوں کے جھرمٹ میں چل پڑے۔ غرض ہر قسم و قدر اور رنگ ڈھنگ کے بندوں کے ساتھ پلے بڑھے، چلے پھرے اور بوڑھے ہوئے۔ اِس چال چلن میں کئی لوگ بڑے قریب آتے گئے، کئی دور اورکئی گم ہوتے گئے۔
آمدم برسرِ مطلب، جمعرات 23 مئی 2019ء بمطابق 18 رمضان المبارک دوپہر دو بجے جنازو جومات مینگورہ سوات میں نمازِ جنازہ پڑھانے ایک میت لائی جاتی ہے۔ اُس کے چہرے سے پردہ ہٹا کر برسرِ عام آخری دیدار کے لیے لوگوں کے سامنے رکھی جاتی ہے۔ بیرونی گیٹ کے ساتھ جمع مجمع میں بے جان سے کھڑے ہم آگے بڑھنے کی ہمت رکھتے ہیں نہ پیچھے ہٹنے کی، نہ اُسے دیکھنے کی ہی سکت رکھتے ہیں۔ کچھ دیر بعدجنازہ پڑھنے کی نیت باندھنے کی صدا چاروں اطراف گونجتی ہے۔ ٹیڑھی کمر عارضی طور پرسیدھی کرکے ہم بھی ہونٹ ہلانا شروع کرتے ہیں۔ نیت کرتے ہیں چار تکبیر نمازِ جنازہ فرضِ کفایہ کی، واسطے اﷲ تعالیٰ کی ثنا کے، درود شریف واسطے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے، دعا واسطے حاضر اس میت کے، منھ جانبِ کعبہ شریف اور پیچھے اِس امام کے، اللہ اکبر‘‘ کے فرمان کے ساتھ کان چھوتے ہیں اوراِس سے آگے کے تکبیری و تذکیری معاملات میت کے باالمقابل کھڑے امام صاحب کے مرضی و منشا پر چھوڑ کر خود آنکھیں بند کرکے گہرے خیالوں میں پرواز کر جاتے ہیں۔ یہ میت جو کئی صفیں دور ہمارے سامنے پڑی ہے، اس میں پڑی بے سدھ شخصیت ہمارے نزدیکی ساتھیوں میں شمار ہوا کرتی تھی، خاص طور پر سفر کے ساتھیوں میں اور امن کے حوالے سے جاری سرگرمیوں میں شامل ساتھیوں میں۔ یہ میت آج صبح تک اس وادی کے نامی گرامی وکیلوں میں اک شخصیت شمارہوا کرتی تھی۔ ایک وسیع حلقے میں اس کے نام کا سکہ چلتا تھا۔ پختون خوا وطن میں ایڈوکیٹ محمد اقبال خان عیسیٰ خیل کو کون پڑھا لکھا بندہ نہیں جانتا تھا۔ یہ بندہ بشرجب درویشی پر اُتر آتا، تو وہ روپ دیکھ کرآدمی حق دق رہ جاتا۔ یہ جب سلطانی کا جامہ زیبِ تن کرتا اور اِتراتا تو بڑے بڑوں کو توبہ تائب کرلیتا۔ ہم نے اُن کے دونوں روپ بار ہا دیکھے۔ یہ غریبوں، مفلسوں اور لاچاروں کے سامنے جتنا موم کی ناک بن جاتا، اتنا وقت کے فرعونوں کے سامنے سیسہ پھیلائی ہوئی دیوار بنتا۔ ظلم و زیادتی دیکھ کر اس کا دماغ پھٹ پڑتا۔ آپ باقاعدہ شاعری نہیں کرتے تھے، کرتے تو دماغوں میں حق و سچ کی بات چھریوں کی طرح چلواتے ، جیسے:
زہ خو تور تہ تور وائم پختون یمہ
سپور سڑی تہ سپور وائم پختون یمہ
حق خبرہ کومہ زہ د دار پہ سر
ہر سہ پہ خپل زور وائم پختون یمہ
جاننے کو تو اُن کوایک عرصہ سے جانتے تھے ہم، کہ تعلق ایک برادری سے تھا۔ زیادہ واسطہ تب پڑا جب سوات میں امن کے حوالے سے جاری سرگرمیوں میں ایک دوسرے کے ساتھ اُٹھک بیٹھک شروع ہوئی۔ یہ سلسلہ وسیع ہوتا گیا۔ تاآں کہ پختون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے بننے کے بعد اُن کازیادہ تروقت اس کی منصوبہ بندی اور دوستوں کے ساتھ بحث و مباحثہ میں گذر جاتا۔ اپنے بے لوث کردار کے طفیل وہ پی ٹی ایم سوات کے مشر منتخب ہوئے اور اس کے 22 رُکنی قومی کور کمیٹی میں بھی اپنی جگہ بنائی۔ وہ سر تا پا داعیِ امن بنے رہے۔ یہاں تک کہ اپنے گھر کے تمام مرد و زن اور بال بچوں کو بھی اِن سرگرمیوں کے لیے وقف کیے رکھا، ہے کوئی ایسا!

مرحوم محمد اقبال عیسیٰ خیل کی ڈسٹرکٹ بار روم سوات میں وکلا کے ساتھ ایک یادگار تصویر۔

اُس کا دفتر دوستوں اور مہمانوں سے بھرا رہتا۔ یہ سارا دن خود ہی کافی، چائے یا قہوہ بنانے میں مصروف بھی رہتے ا ور گپیں بھی ہانکتے۔ پشاور، اسلام آباد وغیرہ میں جب بھی کوئی اجتماعی سرگرمیاں ہوتیں، تو ہم اکھٹے ہی چل پڑتے۔ ایک ہی گاڑی میں پچھلی نشست پر بیٹھ کر گپ شپ شروع ہوتی، تو کچھ ایسی صورت ِحال بپا ہوتی کہ ہم بولا اور وہ سُنا کرتے۔ اتنی دلچسپی کے ساتھ ہمارے ارشادات سنتے کہ کسی وجہ سے باتوں کے تسلسل میں بریک لیناپڑتی، یا مجبوراًکوئی اہم بات کرنے فون سننا پڑتا، تو فوراً بات کا ٹوٹاسِرا، جیسے اندھے کو عصا ہمیں پکڑا کر آگے چلنے کا اشارہ دیتے۔ اُن کے ساتھ وقت گذار کر ذہن کوبڑا سکون و اطمینان اور دِل کو سرور ملتا۔ ایک وقت آیا کہ اُن کے ساتھ کہیں چلنے کو، سفر کرنے کو، باہر نکلنے کو بار ہا بہانے ڈھونڈنے پڑتے۔ پرانے سفری حلقۂ اربابِ ذوق و بے ذوق سے رفتہ رفتہ دور ہونے لگے، کبھی یہ دغا، کبھی وہ دغا دے کر۔ اپنی سوچیں تیزی سے تبدیل ہونا شروع ہوئیں۔ اُن سے تعلق سے پہلے اپنی وادی سے محبت میں ہم خود کو اتنے بڑے تیس مار خان سمجھتے کہ ہر قسم کے عمومی تقریری سٹَف میں بھی اکثر و بیشتر اِس قبیل کے اشعارہر حال میں شاملِ حال کرنے کے بہانے ڈھونڈتے پھرتے، جیسے کہ
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اُتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے
وغیرہ وغیرہ، لیکن اِس دوڑ میں اقبال خان کے دیوانے پن کو قریب سے دیکھا، جانچا، تو آنکھیں کھلیں کہ اِس مد میں تو ابھی ہم چارپائے کے درجے پر بھی فائز نہیں ہوئے۔ اُن کے ساتھ بیٹھنے اوربات کرنے کے جب بھی مواقع ملتے، تواُس دوران میں عرصے سے بھرا دل کا غبار اُتر جاتا، دماغ تروتازہ ہو جاتا۔ ہم اُن کو اپنی بہادری اور شجاعت کی شاہکار داستانیں بھی گوش گذار کرتے، وہ مزے مزے لے لے کر سنتے، اِنجوائے کرتے اور مسکراتے۔ بدامنی کی رودادیں اور دہشت گردوں کے ہولناک واقعات اور سوات وطن کو پہنچنے والے نقصانات کا سن کر اُن قوتوں پر غصہ سے آگ بگولا ہو جاتے، جو یہ ’’ڈالر وں کی جنگ‘‘ ہماری جنت میں درآمد کرکے لائے ہیں۔ اُس کا جسم کپکپا تا، چہرے لال بھبوکا اور آنکھیں سُرخ ہوجاتیں۔ شدید کرب کی کیفیت میں چلے جاتے اور آنسوؤں کی لڑی اُس کی آنکھوں سے لگ کر چہرے کے احاطہ پر پھیلنے لگتی، تو ہم فوری طور پربات کی تان کو لپیٹ کرکسی اور بات کا سِراپکڑا دیتے اور اُنہیں ہنسانے کا اہتمام کرتے۔
آپ کرنے کو تو وکالت کرتے تھے، لیکن امن سے متعلق سرگرمیوں کے لیے اپنی تمام مصروفیات منسوخ کرتے اور اپنے مؤکلوں کو صاف صاف جواب دے کر بتاتے کہ ’’محترم، پہلے مٹی کامعاملہ، پھرروٹی کا۔‘‘ ڈر اور خوف کے نام سے بھی واقف نہ تھے۔ ناجائز کام ہوتے دیکھ کر یا سن کراُن کا رد عمل ہمارے جیسے خاموشانہ کبھی نہ ہوتا، وہ تنِ تنہااس کے خلاف برسرِپیکار ہو جاتے۔ ہر بدی اور خرابی کے خلاف عملی میدان میں لڑنے کو حقیقی جد و جہد سمجھتے۔ عمومی معاملات میں وہ انتہائی سچے، سادے اور کھرے انسان تھے۔ بہت کم لوگ اس حقیقت سے باخبر تھے کہ ’’بینجو‘‘ جیسے پیچیدہ آلۂ موسیقی کو بجانے میں اُن کو ملکہ حاصل تھا۔ پورے پختون خوا میں ’’بینجو‘‘کے دو ماہر تھے جن میں سے ایک پشاور سے تعلق رکھتا تھا، دوسرے یہ تھے۔ کبھی قریبی دوستوں کی محفل جمتی، تو اُردو، پشتو کے پُرانے گانے اور غزلیں بڑی دردناک انداز میں گاتے۔ وہ دشمنوں کے کھلم کھلا دشمن اور دوستوں کے علی الاعلان دوست تو تھے ہی، بچوں کے ساتھ بھی شفقت سے کام لیتے، جزاک اللہ!
قارئین، ایڈوکیٹ محمد اقبال عیسیٰ خیل آج ہم میں نہیں ہیں، لیکن ان کی بے چین روح کواب قرار آہی گیا ہوگا۔ شکر ہے کہ وہ اِس نقلی سی، کاغذی سی، عارضی سی، سرابی سی اور خوف و بد امنی میں لتھڑی سی زندگی سے ابدی زندگی کی طرف خود بہ خودکوچ کرگئے ہیں۔ وگرنہ بعید نہ تھا کہ کچھ ہی عرصے میں وہ ’’نامعلوموں‘‘ کی فہرست میں شمار کیے جاتے۔ بات یہاں پہنچتی ہے، تو’’اسلام علیکم و رحمۃ اللہ‘‘ کی صدا کانوں میں رس گھولتی ہے۔ آنکھیں کھولتے ہیں، تو دیکھتے ہیں کہ امام صاحب جنازے کی تکبریں مکمل کرکے سلام پھیر رہے ہیں۔ ہم بھی فوری سلام پھیر کردُعا مانگتے ہیں اور اِس کوفت زدہ دُنیا میں دوبارہ کود پڑنے مسجد کے دروازے سے باہر قدم رکھتے ہیں۔ ایک آخری نظرِخطا اُس چارپائی پر دے مارتے ہیں، جس کو کندھا دینے کا حسرت دل میں لیے پیاسے روزہ داروں کا ایک جمِ غفیر دیوانوں کی طرح آگے بڑھ رہا ہے،دوڑ رہا ہے۔ گویا کسی پیر کے پیچھے مرید بھاگ رہے ہوں۔ اقبال خان، تم تو گئے خاک میں، لیکن اپنا ایک وکرا نام و نشان یہاں چھوڑ گئے۔ تم ایک علامت بن چکے ہو، بد امنی کے خلاف ایک جہدِ مسلسل کی۔ مظلوموں، لاچاروں اور بے بسوں کے دلوں میں بسنے کی علامت۔ تاریخ تمہیں یاد رکھے گی کہ تم نے طویل جد و جہد کی لازوال داستانوں میں اپنا کردار بڑے رنگ ڈھنگ سے رقم کر لیا ہے۔ تم نے بدامنی سے نبر آزما نئی پود کواِس کڑوی کسیلی زندگی کے ساتھ آنکھیں چار کرکے جینے کا گُر سکھایا۔ بذاتِ خود ہمیں تیرے فوت ہونے کا کوئی ملال نہیں۔ کیوں کہ یہی ایک منزل ہے زندگی کے سفر کی، جس کی طرف ہم سب تیزی کے ساتھ رواں دواں، آپ ہی کی طرف جلد یا بدیرآنے والے ہیں ’’کہ سوک زی او کہ سوک نہ زی۔‘‘ پَر اللہ کو پیارے ہونے تک ایک بہت شدیدقسم کا رنج، ہمارے پلے بندھا رہے گا۔ یہاں ہونے والے بے حساب و بے کنار ظلم و ستم کا رنج،وہ ہمارے پیاروں کی ہڈیاں نوچنے والے کتوں اورکوؤں کی تلخ یادوں کا رنج، وہ کھمبوں کے ساتھ لٹکنے والی بے گناہ کھوپڑیوں کی کہانیوں کا رنج، و علیٰ ہذالقیاس!

مرحوم محمد اقبال عیسیٰ خیل ایڈوکیٹ کی اپنے دوستوں کے ساتھ کھینچی گئی تصویر۔

ہماری ’’میڈ اِن پاکستان‘‘ شجاعت و بہادری کی داستانوں کی رُباعیاں اب سنے گا کون؟ اور اُن پر بند آنکھوں سے یقین کرے گا کون ؟ اِن دو سوالوں کا جواب دینا تھا، جانے سے پہلے۔ اور یہ روزوں سے چند دِن پہلے عثمان اولس یار کے ساتھ ہمارا حال پوچھنے گاؤں جو آئے، بھائیوں کے ساتھ حال احوال پوچھ کر واپس بھاگے تم، ہم سے ملے بغیر کہ ہم جیسے بیمار سے آنکھیں چار نہیں کر سکتے تھے، تو یہ بُزدلی کیسی؟ یار، ہم نے تو تیری بہادری کے کئی بڑے قصے لوگوں سے سنے بھی تھے اور کئی شگوفے ہم نے چھوڑے بھی تھے۔
’’بھگوڑے کہیں کے!‘‘
میری دنیا خراب کر ڈالی
تو نے الفت کی جب نظر ڈالی
پتے پتے میں ان کو دیکھ لیا
ڈالی ڈالی پہ جب نظر ڈالی
میں نے جس شاخ پر کیا مسکن
باغباں نے وہی کتر ڈالی
غیر ممکن ہے ان کا ہاتھ آنا
تو نے غالبؔ کہاں نظر ڈالی

……………………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔