شاعر محمد سرور خٹک اس مصرعے "فرحت پہ تبئی تور د باجوڑ گلونہ” کا تاریخی پس منظر بیان کرتے ہوئے درجِ ذیل دلچسپ داستان رقم کرتے ہیں:
"یہ غالباً 1958ء کی بات ہے کہ میں گورنمنٹ ہائی سکول درگئی میں نویں جماعت کا طالب علم تھا۔ اُن دِنوں ہماری رہائش درگئی ریلوے سٹیشن کے قریب خارکئی نامی گاؤں میں تھی۔ مَیں اپنے چچا زاد میاں امان الملک کے ساتھ باجوڑ میں اُس کے ایک دوست کے ساتھ ملنے کی خاطر گیا۔ زیادہ وقت گزرنے کی وجہ سے مجھے خاص گاؤں کا نام تو یاد نہیں، البتہ اتنا یاد ہے کہ اس علاقہ کو "لغڑئی” کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ میرا چچا زاد اس وقت اپنے میزبان کو کاکاجی کے نام سے پکارتا تھا۔ سہ پہر کو ہم سیر کے لیے ایک پہاڑی کی چوٹی پر چڑھ گئے۔ جسے اس وقت "کمر سر” کے نام سے یاد کیا جا رہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ پہاڑی کی دوسری طرف کا علاقہ افغانستان کونڑ صوبہ سے تعلق رکھتا ہے۔ رات کو کھانے کے بعد "کاکاجی” نے "فرحت پہ تبئی تور د باجوڑ گلونہ” مصرعے کے بارے میں پس منظر بیان کرتے ہوئے کہا کہ مجھے میرے دادا نے اس بارے میں قصہ بیان کیا ہے کہ "تورے تبئی” کے نام سے ایک چشمہ مشہور تھا جو اَب نہیں ہے۔ چشمے کے قریب تخت جیسی ایک بڑی "تبئی” تھی (ایک بڑا پتھر جس پر بیٹھتے ہیں، کے لیے پشتو میں لفظ "تبئی” مستعمل ہے۔) تبئی اور چشمے کے آس پاس گلاب کے بے شمار سرخ پھول اُگے ہوئے تھے، جنہوں نے پورے ماحول کو خوبصورت اور معطر بنایا تھا۔ ارد گرد علاقے کی دوشیزائیں پانی بھرنے کے لیے اس چشمے پر آتی تھیں۔ اپنے خوبصورت مٹکوں کو پانی سے بھرنے سے پہلے وہ کچھ دیر کے لیے اس تخت نما تبئی پر بیٹھ کر ہنسی مذاق کرتی تھیں۔ ایک دن فرحت نامی لڑکی پانی بھرنے کے لیے چشمے کی طرف جا رہی تھی کہ گاؤں کے ایک نوجوان سے اُس کا سامنا ہوا۔ فرحت کو معلوم تھا کہ یہ نوجوان بازار سے سودا سلف لانے کے لیے جاتا ہے۔ اُس وقت بازار، گاؤں سے کافی فاصلے پر ہوتے تھے۔ گاؤں میں اڑوس پڑوس کا کوئی بھی فرد جب بازار جاتا، تو رشتہ دار اور اپنے پرائے اسے پیسے دے کر اپنی ضرورت کی اشیا منگواتے رہتے تھے۔ پیدل آنا جانا ہوتا تھا۔ ہر کوئی نہیں جاسکتا تھا۔ سادگی، صداقت اور اعتماد کا زمانہ تھا۔ دل صاف تھے۔ گاؤں کے لوگ کسی نہ کسی تعلق اور رشتوں سے آپس میں بندھے ہوتے تھے۔ پردہ کرنے اور منھ چھپانے کا کوئی خاص رواج نہ تھا۔ فرحت نے اس نوجوان کو کہا کہ "بھائی  میرے لیے بازار سے قمیص کے لیے کالا کپڑا لے کر آنا۔ ابھی تو میں گھر سے باہر ہوں اور چشمے کو پانی بھرنے جا رہی ہوں، لیکن جب کپڑا لاؤگے تو میری ماں تمہیں پیسے دے دے گی، لیکن کپڑا لانا نہ بھولنا۔ یہ بات اُسی وقت ایک شیطان صفت انسان نے فرحت کے نوجوان بھائی کو غلط رنگ میں پہنچائی۔ فرحت کا بھائی جو نوجوان تھا۔ اس کے خون نے جوش مارا۔ دور بھی جاہلیت کا تھا۔ اُس نادان کے سر پر جھوٹی غیرت سوار ہوگئی۔ اُس نے فوراً تلوار اُٹھائی اور غصے میں چشمے کی طرف روانہ ہوا۔ بے گناہ معصوم فرحت اپنی سہیلیوں کے ساتھ ہنسی مذاق میں مشغول تھی کہ اچانک بھائی نے اُس پر تلوار کے پے درپے وار کیے اور وہ وہیں ہمجولیوں کے درمیان "تورے تبئی” کے اوپر دم توڑ گئی۔ ایک قیامت کا منظر تھا۔ بے گناہ معصوم فرحت کی شہادت رنگ لائی اور چشمہ ویران اور خشک ہوگیا۔ چشمے کے آس پاس سرخ گلاب اب سیاہ ہوچکے تھے۔ اس واقعے کے بعد "تورہ تبئی” کا یہ چشمہ "فرحت چشمے” کے نام سے مشہور ہوا۔ اُس وقت سے لے کر آج تک علاقے کی دوشیزائیں شادی بیاہ میں یہ مصرعہ "فرحت پہ تبئی تور د باجوڑ گلونہ” مختلف ٹپوں اور ہر انداز میں گاتی رہتی ہیں۔”
محمد سرور خٹک نے اُسی رات اُسی حجرے میں اُن کی کہی ہوئی داستان کے مطابق اپنے تخلیقی ٹپوں کے ذریعے اس قصے کو ایک تاریخی ترتیب دے دی، جس سے ایک مصریزہ (پشتو صنفِ شاعری) بن گیا۔ اُس مصریزہ نے ایک حقیقت کو آشکارا کر دیا۔ درگئی واپسی پر کچھ دن بعد یہ تاریخی واقعات ساتھ علاقائی اور جغرافیائی رنگوں کو ملا کر داستان کو ایک گیت کی شکل دی۔ سرور خٹک کی شاعری نے مذکورہ داستان کچھ ایسے رنگ میں دنیا کے سامنے پیش کیا کہ تھوڑے دنوں میں خٹک صاحب کے نام کا ڈنکا بج گیا۔
"فرحت پہ تبئی تور د باجوڑ گلونہ” دراصل یہ مصرعہ تو سالوں سے چلا آ رہا ہے۔ ہر کسی نے اسے اپنے شہروں مثلاً پشاور، ننگرھار، قندھار وغیرہ کے ساتھ ٹپوں میں گایا ہے۔ کسی نے "فرحت” سے سرسوں کا پھول مطلب لیا ہے اور کسی نے صرف یہ ایک علامت قرار دیا ہے، لیکن ہر دور میں "فرحت” ایک سوالیہ نشان ہی رہی۔ کچھ عرصہ پہلے سوات کے ایک مشہور آرٹسٹ ضیاء الدین ضیا نے یہ مذکورہ گیت محمد سرور خٹک کے نام پر ریکارڈ کیا ہے جو سوات کے ایف ایم سٹیشنوں سے نشر ہو رہا ہے۔ اب بہت عرصے کے بعد دوستوں اور اُن کی بیگم زاہدہ مسکان خٹک کے پُرزور اسرار پر اپنے پرانے تحریری ریکارڈ سے یہ تاریخی گیت اکٹھا کیا ہے اور اپنے چھوٹے کتابچہ "فرحت پہ تبئی تور د باجوڑ گلونہ” میں دونوں کو شامل کیا ہے۔ تاکہ "فرحت” کی چھپی ہوئی حقیقت کو تاریخ میں دوبارہ زندہ کیا جائے۔ خٹک صاحب کی مذکورہ کتاب سال 2017ء کو زیور طبع سے آراستہ ہوچکی ہے۔

………………………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔