"گُل آباد” ضلع دیر پائیں کا ایک چھوٹا سا تجارتی مرکز ہے، جہاں پر زیادہ تر گاڑیوں کی مرمت کی دکانوں کے ساتھ دیگر کئی دکانیں ہیں، جن میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ گل آباد چکدرہ سے 4 کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے۔
گل آباد کا قدیم نام "خدرے سلے” تھا۔ خدرے سلے کی وجۂ تسمیہ کے بارے میں یہاں کے بزرگ ایک واقعہ بیان کرتے ہیں جس کے مطابق "خدرے” ایک شخص کا نام تھا جو یہاں کے ایک درہ میں مقیم تھا۔ یہاں سے ایک شخص معاش کی غرض سے ہندوستان چلا گیا تھا۔ خدرے بھی ہندوستان جا رہا تھا۔ اس شخص کی بیوی نے خدرے سے کہا کہ آپ ہندوستان جا رہے ہیں، لہٰذا اگر میرا شوہر ملے، تو اس کو ہماری خیر خبر دے دینا۔ خدرے ہندوستان چلا گیا۔ اس شخص سے ملا اور بیوی بچوں کی خیر خبر اسے دی۔ خدرے جب چند مہینوں بعد ہندوستان سے واپس آ رہا تھا، تو اس شخص نے اپنے بیوی بچوں کے لیے پیسے اور دیگر سامان خدرے کے حوالے کیا۔ جب وہ یہاں پہنچا، تو اس نے گاؤں والوں کو بتایا کہ وہ شخصِ مخصوص ہندوستان میں مر گیا ہے۔ اصل میں وہ قیمتی سامان اور پیسوں کی لالچ میں آگیا تھا۔ کچھ مہینوں کے بعد وہ شخص ہندوستان سے لوٹ آیا۔ چوں کہ وہ زندہ تھا، اس لیے لوگوں نے خدرے کو پکڑ کر اتنا مارا کہ وہ مرگیا۔ چوں کہ یہ جگہ دوسرے دروں اور علاقوں کا راستہ تھی۔ خدرے کو اسی راستہ میں دفن کیا گیا۔ گاؤں والوں نے فیصلہ کیا کہ جو بھی خدرے کی قبر سے گزرے گا، ایک پتھر اس کی قبر پر پھینکے گا۔ اس طرح کچھ وقت بعد خدرے کی قبر پتھروں کا ڈھیر بن گئی۔ تو ایسی جگہ جہاں پر پتھروں کا بڑا ڈھیر بنا ہو، اسے پشتو میں "سلے” کہتے ہیں۔ چوں کہ یہ خدرے کی قبر کا ڈھیر تھا، اس وجہ سے یہ جگہ "خدرے سلے” کے نام سے مشہور ہوئی۔ بعد میں "گل باچا” نامی شخص نے یہاں پر پہلا گھر تعمیر کیا۔ اس وجہ سے یہ جگہ گل باچا کے نام سے منسوب ہوئی اور "گل آباد” کہلائی جانے لگی۔

یہاں سے کشان دور کے تقریباً 400 سکے اور 500 مجسمے دریافت ہوئے ہیں۔ (فوٹو: محمد وہاب سواتیؔ)

گل آباد سے تقریباً 2 کلو میٹر آگے دیر چترال روڈ سے ایک سڑک اُوچ شرقی مڑتی ہے۔ اُوچ شرقی روڈ پر "انڈان ڈھیرئی” کے کھنڈرات موجود ہیں۔ یہ کھنڈرات ڈگری کالج گل آباد کے بالکل سامنے واقع ہیں۔
"انڈان ڈھیرئی” کی وجۂ تسمیہ کے بارے میں یہاں کے بزرگ کہتے ہیں کہ چوں کہ یہ کھنڈرات بدھ مت پیروکاروں کے تھے، جو مسلمان نہیں تھے۔ دوسرا ایسی جگہ جو اونچائی پر ہو، تو اسے پشتو زبان میں "ڈھیرے” کہا جاتا ہے۔ چوں کہ یہاں کا مرکزی سٹوپا "ڈھیری” کا منظر پیش کرتا ہے۔ ان دو وجوہ کی بنا پر یہاں کا نام "ہندوان ڈھیرئی” پڑا۔ بعد میں یہ نام بگڑ کر "اندوان ڈھیرئی” اور بلآخر "انڈان ڈھیرئی” میں تبدیل ہوا۔ یہ نام سب سے پہلے پروفیسر احمد دانی نے اپنی کتابوں میں لکھا۔
1896ء میں ملاکنڈ اور چکدرہ کے قلعوں کی تعمیر کے بعد اُوچ، چکدرہ اور تالاش کے آثارِ قدیمہ کے کھنڈرات سامنے آئے۔ برطانوی فوجی افسروں نے ان کھنڈرات کو پہلی بار دریافت کیا۔ ان میں سے بعض اہم کھنڈرات کو تباہ کیا گیا اور ان کے پتھروں کو ملاکنڈ تا چترال سڑک کی تعمیر میں استعمال کیا گیا۔ انڈان ڈھیرئی اور دوسری یادگاروں کو ملاکنڈ کے پہلے پولی ٹیکل ایجنٹ "ہیرالڈڈین” نے دریافت کیا، جو بعد میں شمال مغربی سرحدی صوبہ (اب خیبر پختونخوا) کا کمشنر بن گیا۔
بدھ مت دور سے تعلق رکھنے والے ان کھنڈرات کے بارے میں فضل خالق صاحب اپنی کتاب "ادھیانہ: سوات کی جنت گم گشتہ” کے صفحہ نمبر 100 پر رقم طراز ہیں کہ "یہ کھنڈرات 50 عیسوی سے 400 عیسوی تک کے اہم کھنڈرات ہیں۔ ان کھنڈرات میں مشرق کی جانب مرکزی سٹوپا سمیت چودہ چھوٹے سٹوپے اور مغرب کے جانب ایک خانقاہ کے آثار ہیں۔ یہاں سے کشان دور کے تقریباً 400 سکے اور 500 مجسمے دریافت ہوئے ہیں۔ تاہم یہاں کی خاص بات ساکا پارتھن دور کے سجاوٹی مجسمے ہیں، جن پر یونانی طرز کی نقش نگاری کی گئی ہے۔”
یہاں پر ایک کنواں بھی موجود ہے جس پر اب ایک بڑا پتھر رکھا گیا ہے۔


انڈان ڈھیرئی میں غیر قانونی کھدائی کی وجہ سے یہاں کے کھنڈرات کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔ (فوٹو: محمد وہاب سواتی)

انڈان ڈھیرئی کی جنوبی طرف ورسک کے پہاڑ ہیں۔ اس پہاڑ کے پتھر قدرتی طور کچھ ایسی طرز پر بنے ہوئے ہیں، جیسے یہ سالوں سے پانی میں موجود ہوں۔ بزرگوں کے بقول یہاں پر مستقل ایک دریا بہتا تھا۔ بعد میں قحط کی وجہ سے دریا سوکھ گیا۔ مشہور چینی زائر ہیون سانگ نے اس قحط کا حوالہ لے کر انڈان ڈھیرئی کے بارے میں بدھ مت کی مشہور داستان بیان کی ہے۔ ہیون سانگ کے مطابق بدھا دور میں جب اس علاقہ میں قحط آیا، تو بدھا نے اپنے آپ کو ایک دیو قامت اژدھا میں تبدیل کیا اور قحط زدہ لوگوں نے اس کے ٹکڑے کیے اور کھا گئے۔ اس داستان کا ذکر فضل خالق نے اپنی کتاب میں بھی کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اس داستان کو یہاں سے جوڑنے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
انڈان ڈھیرئی سے ایک راستہ ہندو شاہی دور کے قلعہ کمال خان چینہ اور بدھ مت دور کے ایک دوسرے مشہور سٹوپا اور خانقاہ نیمو گرام شموزو کی طرف جاتا تھا۔ بدقسمتی سے اب وہ راستے ختم ہوگئے ہیں۔
انڈان ڈھیرئی میں غیر قانونی کھدائی کی وجہ سے یہاں کے کھنڈرات کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔ اس کے گرد حفاظتی دیوار کو گرا دیا گیا ہے۔ اُوچ کی سڑک سیاحتی مشہور مقام "لڑم ٹاپ” تک جاتی ہے۔ اس سڑک پر ایک تاریخی مقام اور دوسرا سیاحتی مقام دونوں حکومتی توجہ کے منتظر ہیں۔ انڈان ڈھیرئی پر معلوماتی کتبہ لگا کر اور دیگر اقدامات سے اس جگہ کی اہمیت کو اجاگر کیا جاسکتا ہے۔ ایک طرح سے یہ سڑک سیاحتی اہمیت سمیت تاریخی حیثیت کی بھی حامل ہے۔

…………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔