ٹیکسلا سے 3 گھنٹے کی مسافت پر بھمالہ گاؤں واقع ہے، جہاں پر بدھ مت دور کے قدیم آثار موجود ہیں۔ بھمالہ تک جانے کے لیے ٹیکسلا کی مین جی ٹی روڈ سے ایک الگ سڑک جدا ہوتی ہے، جو دریائے ہرو کے ساتھ ساتھ مذکورہ آثار تک نکل جاتی ہے۔ یہ سڑک یک رویہ ہے۔ اس پر سفر کرتے وقت دوسری گاڑی کا نکلنا قدرے مشکل کام ہوتا ہے۔ سڑک کی حالت خستہ ہے جس پر فور بائے فور گاڑی کے ذریعے سفر طے کیا جا سکتا ہے۔

بھمالہ گاؤں کے آثار کے بارے میں تصویر میں نظر آنے والا بورڈ پوری کہانی سناتا ہے۔ (فوٹو: محمد وہاب سواتی)

سڑک سے تقریباً 300 سیڑھیاں چڑھتے ہوئے ایک پہاڑی پر بھمالہ سٹوپا واقع ہے۔ بھمالہ گاؤں میں بدھ مت کے آثار دریائے ہرو کے ساتھ ساتھ مری کے پہاڑی سلسلوں کے دامن میں واقع ہیں۔ یوں دریائے ہرو اور پہاڑوں کا سلسلہ اسے چاروں طرف سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔ بدھ مت کے پیروکار بغیر کسی رُکاوٹ اور بیرونی حملہ کی مداخلت کے یہاں پر عبادت کرتے تھے۔

بھمالہ گاؤں کے آثار میں دریافت ہونے والی خانقاہ کا پُرسکون منظر۔ (فوٹو: محمد وہاب سواتی)

بھمالہ کے قدیم آثار 1980ء سے یونیسکو کے عالمی ثقافتی آثار و قدرتی ورثہ کی فہرست میں شامل ہیں۔ بھمالہ تیسری یا پانچویں صدی عیسوی کی تعمیر شدہ صلیبی شکل کے سٹوپا اور خانقاہ کی وجہ سے مشہور ہے۔ ٹیکسلا سے شمال مشرقی جانب شاہراہِ ریشم پر جانے والے ہر تجارتی قافلہ کی پہلی منزل یہی جگہ تھی، جس کا ثبوت بھمالہ کے اطراف سے بہنے والے دریائے ہرو کے دونوں کناروں کے ساتھ ساتھ تعمیر شدہ منتی اسٹوپوں سے ملتا ہے۔

خانقاہ کے اندرونی حصہ کی لی گئی تصویر۔ (فوٹو: محمد وہاب سواتی)

بھمالہ کے آثار کی کھدائی 31-1930ء میں سر جان مارشل کی سرپرستی میں ہوئی۔ 13-2012ء میں ہزارہ یونیورسٹی کے شعبۂ آثار قدیمہ نے "وسکانسن یونیورسٹی امریکہ” اور ایم ایس یونیورسٹی انڈیا کے تعاون سے اس کی دوبارہ کھدائی کی۔ اس کی تاریخی حیثیت کو دیکھتے ہوئے حکومتِ خیبر پختونخواہ نے 16-2015ء میں تیسری مرتبہ اس کی کھدائی کی۔ مذکورہ کھدائی کے دوران میں اہم دریافتیں ہوئیں جس میں کنجور کا بنا ہوا 14 میٹر لمبا مہاتما بدھا کے انتقال کا منظر اور چونے کے بتوں سے مزین چھوٹے عبادت خانوں سمیت سیکڑوں نواردات شامل ہیں۔

آثار میں کھڑے صلیبی سٹوپا کی سامنے سے لی گئی تصویر۔ (فوٹو: محمد وہاب سواتی)

پانچویں صدی کے آخر میں کیدرکشان حکومت سفید ہنز کے حملوں سے شکست خوردہ ہوئی اور یوں تمام تجارتی شاہراہیں بند ہوئیں، بلکہ بھمالہ جیسی خانقاہیں بھی شاہی سرپرستی سے محروم ہوئیں۔ اسی معاشی بدحالی کی وجہ سے بدھ مت کے پیروکار بھمالہ جیسی دورافتادہ خانقاہ کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔
یہ صلیبی شکل کا سٹوپا نہ صرف ٹیکسلا بلکہ پورے گندھارا میں ممتاز حیثیت رکھتا ہے۔ سٹوپا کو چاروں طرف سیڑھیوں کی مدد سے رسائی فراہم کی گئی ہے۔ سیڑھیوں کی مشرقی و مغربی جانب شیر اور شمالی و جنوبی جانب ہاتھی بنائے گئے تھے۔ سٹوپا کے نچلے حصہ کے ساتھ چونے کے مختلف مجسمے موجود ہیں، جن میں اہم ترین گوتم بدھ کے انتقال کا منظر ہے۔ مذکورہ منظر اپنی ساخت اور جسامت کے لحاظ سے پورے گندھارا میں منفرد مقام رکھتا ہے۔ اس کی لمبائی 4.2 میٹر اور چوڑائی 6.1 میٹر ہے۔ لیکن بھمالہ میں ہونے والی تیسری کھدائی کے دوران میں کنجور کے پتھر سے بنا ہوا گوتم بدھ کے انتقال کا سب سے بڑا مجسمہ دریافت ہوا تھا، جس کی لمبائی 14 میٹر ہے۔ گندھارا میں ملنے والا اپنی نوعیت کا یہ سب سے بڑا مجسمہ ہے۔ گوتم بدھ کے انتقال کا مجسمہ مستطیل شکل کے چبوترے میں رکھا گیا ہے۔ اسے تین دروازوں سے رسائی فراہم کی گئی ہے۔

آثار کے احاطہ میں دریافت ہونے والا بدھا کا دیدہ زیب مجسمہ۔ (فوٹو: محمد وہاب سواتی)

سڑک کی خراب حالت اور دور افتادہ ہونے کی وجہ سے یہاں سے سیاح کم آتے ہیں۔ چاہیے کہ محکمۂ آثارِ قدیمہ (خیبر پختونخواہ) یہاں کی تاریخی حیثیت کو مدنظر رکھ کر بنیادی سہولیات کی فراہمی یقینی بنائے، جس سے نہ صرف بھمالہ کی تاریخی حیثیت آشکارا ہوجائے گی بلکہ اس جیسے پسماندہ گاوؤں کی معاشی حیثیت بھی بہتر ہو جائے گی۔

…………………………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔