دنیا میں اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگ بھی پیدا کیے ہیں جو اپنے لیے کم اور دوسروں کے لیے زیادہ جیتے ہیں۔ ایسے ناموں میں ایک نام الحاج محمد زاہد خان کا بھی ہے۔ 1956ء میں مینگورہ شہر میں پیدا ہونے والے الحاج محمد زاہد خان نے ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی اورگورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول مینگورہ سے میٹرک کرنے کے بعد گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ جہانزیب کالج سیدو شریف سوات سے ایف اے کیا۔ تعلیم کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے انہوں نے پشاور یونیورسٹی سے بی اے کیا، اور قانون کی ڈگری ایس ایم لا کالج کراچی سے حاصل کی ۔ آپ نے پشاور یونیورسٹی سے پشتو زبان و ادب میں ایم اے بھی کیا ہے۔ ملاکنڈ ڈویژن میں ٹورازم کے حوالے سے الحاج محمد زاہد خان ہر دل کی دھڑکن بنے ہیں۔ گذشتہ دنوں ان سے ہونی والی نشست میں ایک سوال کے جوب میں کہتے ہیں کہ وکالت کی طرف اس لیے مائل نہیں ہوا کیوں کہ اس وقت وکالت کا پیشہ منت، سماجت، سفارش اور اقربا پروری کا شکا ر تھا۔قانون نام کی کوئی شے بھی نہ تھی۔ حاجی صاحب 1994ء سے اخبار میں کالم لکھتے چلے آرہے ہیں۔ ٹوارزم کے حوالے سے آپ کی لکھی ہو ئی’’سوات اور سیاحت‘‘ مقبول کتاب ہے، جو اُردو اور انگریزی زبانوں میں چھپ چکی ہے۔ اس کے علاوہ آپ سوشل ورکر بھی ہیں۔ ان کی خدمات کو اس چھوٹی سی تحریر میں بیان کرنا مشکل ہے مگر اپنی سی کوشش کیے دیتے ہیں۔
سوات میں طالبانائزیشن کے خلاف حاجی صاحب کی خدمات کسی سے پوشیدہ نہیں۔ آپ نے ۱۹۹۴ء میں اپنے کالم ’’ملاکنڈ ڈویژن، انقلاب یا تباہی کے دھانے پر؟‘‘ میں پیشین گوئی کی تھی کہ مستقبلِ قریب میں سوات کو کن حالات کا سامنا کر نا پڑ ے گا؟
آپ نے اس وقت کی ’’تحریکِ شریعتِ محمدی‘‘ کے امیر صوفی محمد کے خلاف آواز اُٹھائی۔ آپ نے1998ء میں منعقدہ انٹرنیشنل ماڈرن کانفرنس میں صوفی محمد کے خلاف مشاہد حسین سے رو برو سوالات کیے، جن کے خاطر خواہ جواب اب تک انہیں نہیں ملے۔
زاہد خان صاحب نے صوفی محمد کو بغیر کسی ڈر کے ان کے سامنے کہا تھا کہ آپ نے 45 مختلف مقامات پر دھر نا دیا اور 2 بجے کے بعد بغیر کسی شرط کے آپ اور آپ کے جیالے دھرنا کی جگہ سے فرار ہو گئے۔ اس کی کیا وجہ تھی؟ صوفی محمد نے اس سوال کے جواب میں بھی آئیں بائیں شائیں کی۔
صوفی محمد کی جانب سے سنہ 2000ء کو ظفر پارک میں جلسۂ عام کے اعلان پر ہوٹل ایسوسی ایشن سوات کا وفد الحاج زاہد خان کی سربراہی میں صوفی محمد کے پا س گیا، تو وہاں حاجی صاحب نے صوفی محمد سے ببانگ دہل کہا کہ ’’کیا سردی میں ’’شریعت‘‘ کو سردی لگتی ہے؟‘‘ صوفی محمد نے حالات کی نزاکت کو دیکھ کر جلسہ ملتوی کیا تھا۔
حاجی صاحب نے اسلام کے نام پر ووٹ مانگنے والوں کو 2004ء میں سوات میں ایف ایم ریڈیوکی خطرناک صورتحال سے بھی آگاہ کیا تھا، لیکن وہ بھی بے بس تھے۔اس سلسلے میں اس وقت کے ڈی پی اوقدرت اللہ مروت کو صاف الفاظ میں انہوں نے کہا تھا کہ نیویارک ٹائم کے دعوے کے مطابق اُسامہ بن الادن کمراٹ میں موجود ہے اور دوسری طرف سوات میں ایف ایم زوروں پر ہے، اس حوالے سے بحیثیت اعلیٰ پولیس افسر آپ کی خدمات کیا ہیں؟ مذکورہ ڈی پی او بھی اس کے سوال کا جواب نہ دے پایا۔
گلوبل پیش کونسل کے پلیٹ فارم سے امن کے لیے حاجی صاحب نے آواز اٹھائی۔ اس کانفرنس کا سارا خرچہ حاجی صاحب نے اپنی جیب سے ادا کیا تھا۔
2007ء میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات اور طالبانائزیشن کے خلاف آواز اٹھاتے ہو ئے حاجی صاحب نے صاف کہا تھا کہ ہم امن چاہتے ہیں، لیکن مشروط امن بالکل نہیں۔ ہم قانون کے تحت امن چاہتے ہیں، بندوق کے زور پر نہیں۔
آپ نے یہ بھی واضح کیا تھا کہ سوات کے عوام ہمیشہ کے لیے حکومت کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے ہیں۔ ایک اعلیٰ سطح میٹنگ میں سوات کے عمائدین جن میں ایوب اشاڑے، باچا لالا، امیر مقام، قاری عبد الباعث صدیقی اور انوارالحق کے علاوہ اور بھی سیاسی مشران شامل تھے، میں شریعت کے غلط راستے پر نافذ ہو نے سے حاجی صاحب نے انکار کیا تھا ۔ آپ نے دو ٹوک الفاظ میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ سے بھی درخواست کی تھی کہ اس گیم کو سوات سے باہر کہیں اور لے جائیں، جس کے نتیجے میں انہیں فون پر دھمکیاں دی جانے لگیں۔
15 ستمبر 2008ء کو طالبان کے مقامی راہنما شاہ دوران نے الحاج زاہد خان کے خلاف اعلان کیا کہ ان کا بندوبست جلد از جلد کیا جائے۔ اس کے نتیجے میں حاجی صاحب کے گھر پر مسلسل تین حملے ہوئے، لیکن
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے
سوات میں قیامِ امن کے لیے الحاج زاہد خان نے وزیر اعلیٰ کے ساتھ 3 جب کہ گورنر خیبر پختون خوا کے ساتھ 7 ملاقاتیں کیں۔ طالبانائزیشن کے دوران میں مسلسل کرفیو میں نرمی اور طویل کرفیو کا خاتمہ الحاج زاہد خان کی کوششوں کا نتیجہ تھا۔ اس طرح ضلع سوات میں 105 پھاٹکوں میں سے 100 پھاٹکوں کے خاتمے کے لیے آپ کی کوششوں کو ہمیشہ کے لیے یاد رکھا جائے گا۔
ضلع سوات میں فیسٹول کی تجویز بھی حاجی صاحب نے دی تھی اور 2010ء کے سوات فیسٹول میں شریک سیاحوں کو بغیر کسی معاوضہ کے سوات کے ہوٹلوں میں رکھا گیا۔ اس کے بعد 2010ء کے سیلاب کی وجہ سے سوات میں جو 30 ہزار سیاح سوات کے مختلف علاقوں میں پھنس گئے تھے، انہیں بھی الحاج زاہد خان کے توسط سے بغیر کسی کرایہ کے ہوٹلوں میں جگہ دی گئی تھی۔
آئی ڈی پیز کی واپسی کے بعد لوگوں کے گھروں کے کرایوں کا مسئلہ حل کرنے میں بھی حاجی صاحب پیش پیش تھے۔ اس کے علاوہ طالبان کا ساتھ دینے پر گھر کے ایک بندے کی غلطی کی وجہ سے اس کے گھر کو مسمار کرنے سے روکنے کا سہرا بھی آپ کے سر ہے۔ نیز اس کے خاندان کو ہر قسم کی مالی و جالی نقصان سے بچانے میں بھی الحاج زاہد خان کی خدمات قابل ذکر ہیں۔
سوات میں حالات معمول پر آنے کے بعد ’’ورلڈ بینک‘‘سے 90 ملین کی خطیر رقم نکالنے میں آپ کا کردار سراہے جانے کے قابل ہے ۔ حاجی صاحب 1984ء سے مسلسل بطورِ جرگہ ممبر چلے آرہے ہیں۔ سوات قومی جرگہ میں آپ کی خدمات قابلِ تحسین ہیں۔ ا س سلسلے میں آپ کو 2006 ء میں امن کانفرنس میں شریک ہو نا پڑا۔ آپ نے پیتھام میں 300، مینگورہ میں 100، میاندم میں 100 جب کہ کالام میں 90 نوجوانوں کو ہوٹل مینجمنٹ کی تعلیم دلوائی۔ ٹیکنیکل کالجوں میں فنڈز کی منظوری کا کارنامہ بھی آپ ہی کا ہے۔ انڈین پریس میں آپ کے کئی انٹرویوز بھی ریکارڈ ہو چکے ہیں۔ فرانس میں آپ پر ڈاکومینٹری بنائی گئی ہے۔ آپ پاکستان کے امن ایوارڈ سے بھی نوازے جا چکے ہیں۔اس کے علاوہ لا تعداد سماجی تنظیموں سے مختلف ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں۔ 3 اگست 2012ء بمطابق 14 رمضان کو آپ نمازِ تراویح کے لیے مسجد تشریف لے جارہے تھے کہ نامعلوم افراد کی گولی کا نشانہ بنے۔ گولی گردن سے ہوتی ہوئی ناک کے قریب سے گزری تھی۔ آپ کو اس وقت اسپتال لے جایا گیا۔ ابتدائی طبی امداد کے بعد آپ کا آپریشن کیا گیا اور گلے میں سانس کی بندش کی وجہ سے ایک سوراخ کرنا پڑا۔ آپ کی ناک کا آپریشن بھی کیا گیا۔ اِس وقت حاجی صاحب کی ناک میں ہڈی نہیں ہے۔ ان تکلیف دِہ مراحل سے گزر کر اللہ تعالیٰ نے آپ کو نئی زندگی بخشی، یعنی حق نے باطل کو شکست دی۔
الحاج محمد زاہد خان نے خپل کور ماڈل سکول کے لیے دو کنال زمین وقف کی ہے۔ آپ نے کبل میں باچا خان سکول کے لیے بھی 2 کنال زمین وقف کر رکھی ہے۔ اس کے علاوہ بھی حاجی صاحب کی خدمات کی فہرست بہت طویل ہے۔ اب میں قارئین پر چھوڑتا ہو ں کہ الحاج محمد زاہد خان ’’تمغۂ شجاعت ‘‘ کے حقدار ہیں یا نہیں؟

……………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔