حجرہ پشتون ثقافت کا امین ادارہ ہے۔ یہ روزِ اول سے پختون ثقافت کا اہم حصہ چلا آ رہا ہے لیکن موجودہ ترقی یافتہ دور میں اس کی اہمیت میں روز بروز کمی واقع ہوتی جا رہی ہے۔ ایسے وقت میں سوات کے علاقہ شموزئی کے گاؤں خزانہ میں تقریباً 300 سال پرانا حجرہ آج بھی اپنی اصل حالت میں قائم ہے۔
گاؤں خزانہ کایہ تاریخی حجرہ آج بھی پورے گاؤں کے مل بیٹھنے کی جگہ ہے۔ اس میں گاؤں کے لوگ مل بیٹھ کر ایک دوسرے کا حال احوال پوچھتے ہیں۔ شادی اور غم سے متعلق تقریبات یہاں منعقد ہوتی رہتی ہیں۔
اہلِ علاقہ کے مطابق یہ حجرہ ریاست سوات کے قیام سے پہلے یہاں بسنے والے قبائل نے تعمیر کیا تھا۔ حجرہ میں موجود لوگوں کا کہنا تھا کہ گاؤں میں ہر گھر کے ساتھ لوگوں کی ذاتی بیٹھکیں اور حجرے موجود ہیں، لیکن ظہر اور مغرب کی نماز کے بعد گاؤں کے چھوٹے بڑے سب اس میں جمع ہوتے ہیں۔ نیز گاؤں کا بزرگ ہو یا جوان، اگر حجرے میں نہ دیکھا جائے، تو اس کی خیرخیریت اس کے اہل و عیال یا دوستوں سے دریافت کی جاتی ہے۔ اس حجرے کی وجہ سے گاؤں کے لوگوں میں کوئی اختلاف نہیں اور سب مل کر ایک چھت تلے بیٹھتے ہیں۔
گاؤں خزانہ کا یہ پرانا حجرہ ریاستِ سوات دور (1915ء) سے پہلے تعمیر کیا گیا تھا۔ ریاست کی بنیاد رکھنے کے لیے جرگے بھی اس حجرہ میں ہوتے تھے۔ ریاستِ سوات کے قیام کے بعد اس کے حکمران میاں گل عبدالودود المعروف باچا صاحب نے اس حجرہ کو عدالت کا بھی درجہ دیا تھا، جہاں اس وقت کے تحصیل دار علاقہ کے مقدمات کے فیصلے اس حجرہ میں کیا کرتے تھے۔

حجرہ کو عدالت کا درجہ بھی حاصل تھا، جہاں چھوٹے بڑے مسئلے حل کیے جاتے تھے۔ (فوٹو: فضل خالق)

گاؤں خزانہ کے ایک بزرگ ملیزے ماما نے حجرہ کے حوالے سے لفظونہ ٹیم سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس حجرہ کو ایک طرح سے عدالت کا درجہ بھی دیا گیا تھا۔ اُس وقت حجرہ میں ریاست نے ٹیلی فون بھی لگوایا تھا۔ اُس دور میں علاقہ کے لوگوں نے ٹیلی فون کے بارے میں سنا تھا اور نہ اس کو دیکھا تھا، جس کی وجہ سے علاقہ کے لوگ اس کو دیکھنے کے لیے حجرہ آیا کرتے تھے۔ ریاستِ سوات کے دارالخلافہ سیدو شریف سے ہر قسم کا پیغام حجرہ میں رکھے اس ٹیلی فون کے ذریعے دیا جاتا تھا۔
علاقہ کے بزرگوں کے مطابق 1964ء تک اُن کے علاقہ میں سکول نہیں تھا۔ ریاستِ سوات کے بادشاہ نے جب اس علاقہ میں سکول کھولنے کا اعلان کیا، تو اس وقت کے پہلے پرائمری سکول کو بھی اسی حجرہ میں کھولا گیا، جہاں علاقہ کے بچے صبح سے دوپہر تک تعلیم حاصل کرتے تھے۔
ایک بزرگ امین خان کا اس حوالہ سے کہنا تھا کہ انہوں نے اسی حجرہ میں پہلے سے پانچویں جماعت تک تعلیم حاصل کی ہے۔ جب علاقہ میں مڈل سکول تعمیر کیا گیا، تو پھر حجرہ کے طلبہ کو اُس مڈل سکول میں منتقل کیا گیا۔
مقامِ افسوس ہے کہ یہ حجرہ اب خستہ حال ہوچکا ہے۔ اس کے کمروں کی دیواریں گر چکی ہیں جس کی وجہ سے یہ قابل استعمال نہیں رہے۔ اب اہلِ علاقہ حجرہ کے برآمدے میں بیٹھتے ہیں۔ علاقہ کے بزرگوں کا کہنا ہے کہ یہ حجرہ تاریخی ورثہ ہے اور اگر حکومت اس کی ماہرین کے ذریعے پرانی حالت میں مرمت کرے، تو یہ تاریخی ورثہ آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ رہ سکے گا۔

……………………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔