ادغام کا اعلان 28 جولائی 1969ء کو ہوا لیکن دیر، چترال اور سوات ( انتظامی) ضابطہ قانون، 1969ء کا اجرا 15 اگست 1969ء کو ہوا۔ اس کی شق 3 بہ عنوان "حکمران انتظامی وظائف ختم کردیں وغیرہ”  میں کہا گیا کہ "اس ضابطۂ قانون کے روبہ عمل آنے کے بعد اس سے پہلے کے قانون، ضابطہ، رسم، رواج، احکامات یا ہدایات کے باوجود اس کے آغاز سے
(الف) صراحت شدہ علاقوں (دیر، چترال اور سوات) میں سے ہر ایک کا حکمران اپنے اختیارات پر عمل درآمد ختم کر دے اور وہ تمام معاملات جو کہ صوبائی قانون ساز ادارہ کے تحت آتے ہیں یا ان علاقوں کی انتظامیہ سے متعلق ہیں، ان کے بارے میں وہ کوئی کارروائی نہ کرے۔
(ب) اختیارات اور وظائف جن کا جزو (الف) میں حوالہ دیا گیا ہے،جن پر اِس ضابطۂ قانون کے لاگو ہونے سے پہلے مذکورہ بالا علاقوں میں سے کسی کا حکمران عمل درآمد کر رہا تھا، اب صوبائی حکومت کی عمومی دیکھ بھال اور ہدایت کے مطابق اُس کا مقرر کردہ افسر، شخص یا با اختیار جیسا کہ صوبائی حکومت چاہے عمل درآمد کرے گا۔”
اس کے باوجود بھی "کوئی افسر، شخص یا با اختیار” ان حکمرانوں کے اختیارات و وظائف سر انجام دینے کے لیے مقرر نہیں کیا گیا۔ 16 اگست 1969ء کو اس ضابطۂ قانون کو قابلِ عمل بنانے کے لٰے یہ حکم جاری ہوا: "مغربی پاکستان کی حکومت بہ خوشی ملاکنڈ ڈویژن کے کمشنر کو اختیارات تفویض کرتی ہے کہ وہ صوبائی حکومت کی عمومی دیکھ بھال اور ہدایت کے مطابق وہ تمام اختیارات استعمال کرنے اور وظائف سرانجام دینا شروع کر دے جو کہ اس ضابطۂ قانون کے عین پہلے ان صراحت شدہ علاقوں کے حکمران استعمال کرتے تھے، یا سرانجام دیتے تھے۔”
اس طرح ادغام کے اعلان نے دور دور تک ایک انتشار اور الجھن کی سی کیفیت پیدا کر دی اور سوات پر بے یقینی کی سیاہ چادر تن گئی۔ والیِ صاحب نے اپنے سرکاری وظائف کی ادائیگی بند کر دی لیکن اُن کی جگہ کوئی ایسا بااختیار شخص بھی موجود نہ تھا، جو ان وظائف کو سرانجام دے۔ ریاست کے انتظامی حکام بھی الجھن کا شکار تھے۔ ادغام کا اعلان آئندہ حکومت کے لیے مناسب منصوبہ بندی اور اس کے عواقب و نتائج کا اندازہ لگائے بغیر کردیا گیا تھا۔ اس کے بعد میں کافی منفی اثرات اور متنازعہ فیہ نتائج سامنے آئے۔ (کتاب ریاستِ سوات از ڈاکٹر سلطانِ روم، مترجم احمد فواد، ناشر شعیب سنز پبلشرز، پہلی اشاعت، صفحہ 247 سے انتخاب)