ژِند اوویستا (The Zend-Avesta) کے ساتھ تقریباً ویسے ہی حالات گزرے ہیں، جو تورات کے ساتھ گزرے ہیں، حتیٰ کہ ارتخت شاہ یا اردشیر کے زمانے میں تورات کی بازیافت کا جو قصہ عذرا فقیہ نے بیان کیا ہے، ہو بہو وہی قصہ اس ژند اوویستا کی بازیافت کا بھی ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ ژند اوویستا بھی مکمل طور پر غائب ہوگئی تھی۔ ارد شیر نے مغوں یعنی پارسی علما کی ایک کانفرنس بلائی، جس میں لگ بھگ 90 ہزار مغ شریک ہوئے۔ پھر ان 90 ہزار میں انتخاب در انتخاب ہوتا رہا۔ آخر میں ایک نوجوان مغ ’’ادوا دیروف‘‘ (Adwa Derof) پر سب کا اتفاق ہوگیا۔ اسے مقدس مشروب کے 3 پیالے پلائے گئے، تو وہ ایک لمبی نیند سوگیا۔ کافی دیر بعد جاگا، تو بولا کہ مَیں نے آسمانوں کی سیر کی ہے اور دیوتاؤں سے ملاقات ہوئی ہے۔ پھر اس مغ کو دیوتاؤں نے جو کچھ بتایا تھا، وہ اس نے بیان کرنا شروع کیا جسے تحریر کیا جاتا رہا (ٹیچنگ آف زور آشٹر بحوالہ مذاہب عالم کی آسمانی کتابیں)۔
اس قصے اور عذرا فقیہ کی کہانی میں جو مماثلت ہے، وہ ظاہر ہے۔ حتی کہ مشروب کا رنگ تک ایک ہے جو کہ زرد آتشیں ہے، جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ دونوں کہانیاں ایک ہی ذہن کی پیداوار ہیں۔ اب یہ معلوم کرنا ازحد مشکل ہے کہ اولیت تورات والی کہانی کو حاصل ہے، یا ژند اوویستا والی کہانی کو…… لیکن کم از کم یہ بات تو ثابت ہوجاتی ہے کہ دونوں ہی کہانیاں ناقابلِ اعتبار ہیں۔ دونوں ہی کتابیں عام انسانوں نے اپنی یادداشتوں اور پسند کے مطابق بنائی ہیں اور محض اسے مقدس بنانے کے لیے مذکورہ کہانیاں بیان کی گئی ہیں۔
ایک روایت یہ بھی ہے کہ جب سکندر نے مشرق کو تاراج کیا، تو اوویستا کو مکمل طور پر دریا برد کرکے نابود کر دیا گیا۔
موجودہ ژند اوویستا کو ابھی حال ہی میں ایک فرانسیسی عالم نے بڑی مشکلات کے بعد ہند کے پارسیوں میں تلاش کیا۔ یہ انگریزی دور کا واقعہ ہے۔ پھر اسے پیرس سے شائع کیا گیا اور موجودہ ژند اوویستا یہی ہے۔
ژند اوویستا کے مندرجات کے بارے میں ایک بڑے عالم کا کہنا ہے کہ یہ بلدیہ کے کوڑا کرکٹ کے ڈھیر جیسا ہے، جس میں بیکار فالتو اور ازکارِ رفتہ اشیا کے بیچ میں کبھی کبھی کوئی موتی بھی ہاتھ لگ جاتا ہے۔
(سعد اللہ جان برقؔ کی کتاب ’’پشتون اور نسلیاتِ ہندوکش‘ مطبوعہ ’’سانجھ پبلی کیشن‘‘ جلد اول، صفحہ نمبر53-54 سے انتخاب)