ریاستِ سوات کے ادغام کے فوائد و نقصانات کا فیصلہ آدمی کے نقطۂ نظر اور طرزِ فکر پہ منحصر ہے لیکن یہاں دو غیر ریاستی باشندوں کی آرا بیان کرنا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔ دونوں کا تعلق چارسدہ سے ہے، عبدالولی خان اور پیر فضل ِخالق۔
عبدالولی خان کے مطابق ریاست کے دور میں امن وامان تھا۔ فوری انصاف تھا۔ سڑکوں کی مناسب دیکھ بھال تھی اور قیمتیں کم تھیں۔ ریاست کی پختون شناخت، اس کے جھنڈے پر اس کی علامت اور پشتو زبان سرکاری زبان تھی۔ اُس نے مینگورہ کے شیر زادہ خان کے حجرہ میں والی کے مخالفین سے کہا کہ پاکستانی نظامِ حکومت کی برائیوں سے وہ بہ خوبی واقف ہیں۔ ریاست سوات سے اُس کا مقابلہ ہرگز ممکن نہیں۔ اگر ادغام ہوگیا، تو پاکستانی نظام کی تین برائیاں یعنی پٹواری، پولیس اور وکیل بھی سوات میں داخل ہوجائیں گی اور لوگوں کے دکھوں میں بے پناہ اضافہ ہوجائے گا۔
تاہم پیر فضل ِخالق کا اس سلسلہ میں کہنا تھا کہ ریاستِ سوات میں مقدمات اور فیصلے بغیر دلیل، بغیر وکیل، اور بغیر اپیل (بے دلیلہ، بے وکیلہ او بے اپیلہ) کے کیے جاتے ہیں۔ یعنی والی کے سامنے دورانِ مقدمہ حجت کی اجازت نہیں۔ فریقین وکیلوں کی خدمات سے محروم ہوتے ہیں اور والی کے فیصلے حتمی ہوتے ہیں۔ اُن کے خلاف کوئی شنوائی نہیں کی جاسکتی۔ (کتاب ریاستِ سوات از ڈاکٹر سلطانِ روم، مترجم احمد فواد، ناشر شعیب سنز پبلشرز، پہلی اشاعت، صفحہ 224 اور 225 سے انتخاب)