یوسف زئی قبیلہ دوحصوں میں تقسیم ہے : ایک یوسف زئی جب کہ دوسرا منڈر کہلاتاہے۔
اخوند درویزہ لکھتے ہیں کہ اس قبیلے کے جدِامجد ’’مندو‘‘ تھے جس کے دوبیٹے تھے۔ ایک کا نام یوسف تھا، جس کی اولاد ’’یوسف زئی‘‘ کہلاتی ہے اور دوسرے کا نام عمر تھاجس کا ’’مندڑ‘‘ نامی اک بیٹا تھا۔
کہتے ہیں کہ یوسف کے پانچ بیٹے تھے جو ’’عیسیٰ‘‘، ’’موسیٰ‘‘ ،’’مالی‘‘ ، ’’اکو‘‘اور ’’اوریا‘‘ کے ناموں سے جانے جاتے تھے۔ ان میں عیسیٰ کثیر العیال تھا جس کے 12 بیٹے تھے۔ مغلوں کے ساتھ ایک لڑائی میں عیسیٰ اپنے 9 بیٹوں کے ساتھ جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ نتیجتاً عیسیٰ کے دو ہی بیٹے ’’حسن‘‘ اور’’یعقوب‘‘ زندہ بچ پائے۔ بعد میں حسن کی اولاد ’’حسن زئی‘‘ اور یعقوب کی ’’یعقوب زئی‘‘ کہلائی۔ عیسیٰ کا بارہواں بیٹا ’’اکا‘‘ اُس کی موت کے بعد پیدا ہوا تھا، جس کی اولاد ’’اکازئی‘‘ کہلاتی ہے۔ مذکورہ تینوں خاندان کوہِ سیاہ سے لے کر مابنڑ(مہا بن) کے پہاڑوں تک آباد ہیں۔ ’’حسن زئی‘‘ اور ’’اکازئی‘‘ اباسین کے مشرقی کنارہ جب کہ ’’مداخیل‘‘ مغربی کنارہ پر آباد ہیں۔ اس طرح یوسف کے دیگر دوبیٹے ’’موسیٰ‘‘ اور ’’مالی‘‘ کی اولاد بونیر کے علاقہ میں آباد ہے۔ بونیر کے شمال کی طرف سوات کے پہاڑ ہیں۔ مغرب کی طرف ’’سمہ رانیزئی‘‘ مشرق کی طرف اباسین اور جنوب کی طرف ’’چملہ‘‘ کا علاقہ ہے۔ بونیر کے چاروں اُور پہاڑہیں۔ ان پہاڑوں میں جابجا کئی درے ہیں، جن میں لوگ کھیتی باڑی کرتے ہیں۔
بونیر کی آب وہوا اچھی ہے جہاں پہاڑوں پر برف پڑتی ہے۔ یوسف زئی بونیر میں کچھ یوں آباد ہیں کہ مشرق کی طرف چغرزئی، شمال کی طرف گدازئی ،مغرب کی طرف سالارزئی، جنوب کی طرف نورزئی اور درمیان میں عائشہ زئی اور دولت زئی ہیں۔
بونیر میں ’’پاچا کلی‘‘ نامی گاؤں میں مشہور ولی اللہ ’’پیر بابا‘‘ کا مزار ہے۔ پیر بابا کا نام سید علی ترمذی ہے، جو ’’ترمذ‘‘ کے علاقہ سے ظہیر الدین بابُر کے گھرانے کے ساتھ آئے تھے۔ پیربابا نسلاً سیّد تھے۔ جس وقت شیرشاہ سوری نے ہمایون کوہندوستان سے مار بھگایا، تو پیرباباکے والد افغانستان کے علاقہ’’ قندوز‘‘واپس چلے گئے اور آپ نے بونیر کونہ صرف اپنا مسکن بنایا بلکہ وفات پانے کے بعد اب وہاں آسودہ خاک بھی ہیں۔
یوسف کا ایک بیٹا ’’اوریا‘‘ تھا جسے لوگ ’’بادی‘‘ کے نام سے پکارا کرتے تھے۔ اخون درویزہ کے مطابق ’’اوریا‘‘ اپنی ماں کی شان میں گستاخی کا مرتکب ہوا تھا، جس کی وجہ سے اسے بددعا ملی تھی۔ بدیں وجہ اسے اولاد کم نصیب ہوئی۔ جو تھوڑی بہت تھی، وہ چغرزئی میں رہائش پذیر اور شریک ہوئی۔
یوسف کے چوتھے بیٹے ’’اکو‘‘ کی اولاد بالائی اور زیریں سوات،دیر اور پنجکوڑہ میں رہائش پذیر ہے۔ اکوزئی کی دوشاخیں ہیں: ایک ’’خواجہ زئی‘‘ جب کہ دوسری ’’رانڑی زئی‘‘۔ ’’سمہ‘‘ کے علاقے کے رانڑی زئی موضع’’نپولی‘‘ سے لے کر ملاکنڈ کی چوٹیوں تک آباد ہیں اور ’’بررانڑی زئی‘‘ ملاکنڈ سے اوپر۔ ’’خواجہ زئی‘‘ کی بعض شاخیں بالائی سوات میں آباد ہیں۔ اسی شاخ کی ایک ٹہنی ’’ملی زئی‘‘ دیر میں آباد ہے۔ سوات خوبصورت جگہ تھی لیکن یوسف زئیوں کی خانہ جنگی کی وجہ سے اس کا حلیہ بگڑ گیا جس کی تصدیق خوشحال خان ان الفاظ کے ساتھ کرتے ہیں: ’’وران رباط تری جوڑ شوی۔‘‘ لیکن میاں گل عبدالودود جو بیسویں صدی میں یہاں کا حکمران بنا، اُس نے دوبارہ سوات کو آباد کیا۔ (م، ج سیال مومند کی تالیف ’’د پختنو قبیلو شجری‘‘ ناشر یونیورسٹی بک ایجنسی پشاور، دوسرا ایڈیشن، فروری 2015ء، صفحہ 85 تا 87 کا ترجمہ)

……………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔