نوابی ریاستوں کی جانب سے مکمل آزادی کے مفروضہ کو تسلیم کیے جانے کے بعد 15 اگست 1947ء کو حکومتِ پاکستان اور ریاستِ سوات نے اپنے مابین مستقبل کے تعلقات کا تعین ضابطۂ الحاق کی شکل میں کیا۔ یہ معاہدہ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کی شرائط سے مطابقت رکھتا تھا، جنھیں حکومت پاکستان نے قبول کر لیا تھا۔ ریاست میں اپنے اقتدار اعلیٰ کو برقرار رکھتے ہوئے یہاں کے حکمران نے دفاع، خارجہ اُمور اور مواصلات پر حکومت پاکستان کا اختیار تسلیم کرلیا تھا۔ اس ضابطہ کی بنیاد پر ریاستِ سوات نے نہ صرف پاکستان کے وفاق میں اُس کے ایک وفاقی جزو کی حیثیت سے جگہ حاصل کرلی بلکہ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کی ذیلی حصہ 5 کے شق (اے) میں اپنے لیے حوالہ بھی حاصل کیا۔
دیر کے علاوہ دیگر وفاقی ریاستوں کی طرح ریاستِ سوات نے بھی 1954ء میں ضمنی ضابطۂ الحاق کو عملی صورت دی جس کے مطابق والی نے اپنے اختیارات پاکستان کے وفاقی قانون ساز ادارے کو سونپ دیے۔ اب اسے پاکستان کے دیگر حصوں کی طرح اس ریاست کے لیے بھی قانون سازی کا حق وفاقی اور دیگر متفرقہ میدانوں (فہرست I اور III،VII شیڈول آف گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء)میں مل گیا اور اسے ان پر ریاست میں عمل درآمد کا حق حاصل ہوگیا۔ حکمران کے اعلان میں مزید کہا گیا کہ: "میں مزید یہ اعلان کرتا ہوں کہ پاکستان کا وہ آئین جسے پاکستان کی قانون ساز اسمبلی بنائے گی اُسی طرح اس ریاست کا بھی آئین ہوگا جس طرح پاکستان کے دیگر علاقوں کے لیے ہوگا، اور اس پر اس کی تمام شقوں کے مطابق من و عن عمل درآمد کیا جائے گا اور اس آئین کی تمام شقیں اس کے نافذ ہوتے ہی مؤثر ہوں گی۔ اور اس سے متصادم دیگر تمام آئینی شقوں کو کالعدم کر دیں گی۔”
اس معاہدے سے قانون ساز اسمبلی نے وہ اختیار حاصل کر لیا جس کے تحت وہ سوات کو پاکستان کی آئینی تنظیم میں ایسی جگہ دے سکے جسے وہ موزوں سمجھے۔ قانون ساز اسمبلی نے بنیادی اصولوں کے لیے قائم کمیٹی کی سفارش پر جمہوریہ پاکستان میں سوات کو دیگر ریاستوں کی طرح جگہ دے کر اسے بھی جمہوریہ کا حصہ بنا دیا۔ اس بنا پر قانون ساز اسمبلی کی طرف سے سوات کو آئینِ پاکستان میں جگہ دیے جانے کے بعد ریاست اُس کی پابند ہوگئی۔ اب اگر اسمبلی چاہے، تو ریاستِ سوات کو گورنر یا چیف کمشنر کے تحت کوئی صوبہ بنا دے یا کسی اور میں اسے مدغم کر دے یا اُسے پہلے کی طرح کام کرتا رہنے دے۔
1956ء کے آئین کی تشکیل اور اعلان سے قبل بنیادی اصولوں کے لیے قائم کمیٹی اور قانون ساز اسمبلی کے جوائنٹ سیکرٹری عبدالحمید نے سوات اور دیگر وفاق کا حصہ بننے والی ریاستوں کے مستقبل کے بارے میں مختلف امکانی صورتوں پر تفصیلی بحث و تمحیص کی۔ آئینی پوزیشن اور امکانی صورتوں کے مکمل تجزیہ کے بعد یہ کہا گیا: "اگر حکومتِ ہندوستان اس عہد سے حاصل ہونے والے اختیار کے ذریعہ کچھ ریاستوں کو مکمل طور پر ختم کرسکتی ہے اور دیگر کو گورنر یا چیف کمشنر کے تحت صوبائی حیثیت دے سکتی ہے، تو بالآخر پاکستان کی قانون ساز اسمبلی اسی انداز کو اپناتے ہوئے ایسا کیوں نہیں کرسکتی؟ قانون ساز اسمبلی کو پورا اختیار حاصل ہے کہ وہ وفاق میں شامل ریاستوں کے لیے کوئی موزوں آئین تشکیل کرسکے اور اسے جو اختیار حاصل ہے اُس کے تحت یہ ان ریاستوں کو ختم کرسکتی ہے۔ آئین کے نفاذ کے بعد انہیں پاکستان ہی کے کسی پڑوسی صوبہ میں مدغم کرسکتی ہے۔ یا مستقبل میں ادغام کی کوئی صورت پیش کرسکتی ہے اس لحاظ سے ادغام ناممکن نہیں ہے۔”
لیکن صوبہ سرحد (اب خیبر پختونخوا) کی ریاستوں اور قبائلی علاقوں کو ادغام یا مکمل طور پر ختم کرنے کی جگہ 1955ء میں ون یونٹ آف ویسٹ پاکستان کے تشکیل پانے کے وقت خاص علاقے قرار دے کر قانون ساز اسمبلی کی طرف سے فراہم کردہ ایک خاص تعلق کی ضمانت دی گئی۔ اس کی وجہ بعض صوبائی سیاست دانوں اور افغانستان میں اس ادغام کے خلاف چیخ و پکار اور احتجاج کی فضا تھی جس نے تناؤ کی کیفیت پیدا کرکے حکومتِ پاکستان کو کسی ممکنہ قبائلی جنگ سے خوفزدہ کر دیا۔ 1956ء کے آئین نے نہ صرف یہ کہ ان ریاستی حکمرانوں کے حقوق و مفادات کی ضمانت دی بلکہ دفعہ 104 کے تحت شمال مغربی صوبہ کی ان ریاستوں کو خاص علاقہ کی اپنی حیثیت برقرار رکھنے کی اجازت دے کر خاص حیثیت عنایت کی۔ مزید برآں اس دفعہ کے تحت مغربی پاکستان کی صوبائی قوتِ نافذہ کو کسی کارروائی سے قبل صدرِ پاکستان کی اتفاق رائے سے مشروط کردیا گیا۔
1962ء کے آئین میں سرحدی ریاستوں کو قبائلی علاقہ قرار دیا گیا اور اس آئین کی دفعہ 223 کے تحت یہ لازم کردیا گیا کہ قبائلی علاقہ میں کوئی مرکزی یا صوبائی قانون صدر یا گورنر کی ہدایت کے بغیر نافذ نہیں کیا جاسکے گا۔ ایڈیشنل پولیٹیکل ایجنٹ چترال کی جانب سے چترال کے مستقبل کے بارے میں اٹھائے گئے ایک سوال کے جواب میں یہ بیان کیا گیا کہ”یہاں اس بات پر زور دینے کی ضرورت نہیں کہ اس معاملہ میں اس وقت کیے گئے کسی فیصلہ کا اطلاق صرف چترال تک محدود نہیں رہے گا، بلکہ ملاکنڈ ایجنسی کی دو دیگر ریاستوں (دیر اور سوات) کی آئینی اور انتظامی ڈھانچہ کو بھی متاثر کرے گا۔ اس لیے اس معاملہ کا فیصلہ کسی موزوں موقع کے لیے مؤخر کر دیا جانا چاہیے۔ فیصلہ کے وقت اس کو بہ ہر لحاظ دیکھا جائے گا۔”
حکومتِ پاکستان اپنے قوانین کی ان ریاستوں تک توسیع کرسکتی تھی لیکن ان قوانین کا نفاذ عملاً ریاستی انتظامیہ کی مرہونِ منت ہوتا تھا۔ اس لیے پاکستانی قوانین کی ریاستوں تک توسیع اور پھر ان کے نفاذ کا معاملہ بہت ہی مشکل مسئلہ تھا۔ اس مشکل سے بچنے اور کسی تناؤ سے اجتناب کی خاطر یہ پالیسی اپنائی گئی کہ ریاستی حکومتوں کو آمادہ کیا جائے کہ وہ کسی خاص قانون کو نافذ کرنے کے لیے خود ہی ضروری انتظامات کریں۔
25 مارچ 1969ء کو ایوب خان کی حکومت سے دست برداری اور ملک میں مارشل لا کے نفاذ کے بعد 1962ء کے آئین میں صوبہ سرحد کی ریاستوں کو دی گئی قبائلی علاقہ کی حیثیت کو عارضی آئینی حکم نامہ کی دفعہ 3 شق (۱) کے تحت برقرار رکھا گیا۔ جس میں کہا گیا کہ "8 جون 1962ء سے نافذ اسلامی جمہوریۂ پاکستان کے آئین کی تنسیخ کے باوجود آگے چل کر آئین سے مراد یہی آئین ہوگا اور وقت بہ وقت چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے کسی حکم یا فرمان کے اجرا کے علاوہ حکومتِ پاکستان اسی آئین کے تحت چلتی رہے گی۔ سوائے اُن باتوں کے جو اس حکم میں کہی گئی ہیں۔”
حالاں کہ عارضی آئینی حکم نامہ مجر یہ 1969ء کے تحت ریاست سوات کی حیثیت کو بہ حال رکھا گیا تھا، لیکن چند ماہ کے اندر اس ریاست کا خاتمہ کر دیا گیا۔ 1954ء کے ضمنی ضابطۂ الحاق کے تحت والی نے اپنے بیشتر اختیارات پاکستان کی قانون ساز اسمبلی کو سونپ دیے تھے جو آئینِ پاکستان کے تحت ریاستِ سوات کو کوئی مناسب حیثیت دینے کی مجاز تھی۔ عارضی آئینی حکم نامہ 1969ء کے تحت یحییٰ خان چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور صدر کی حیثیت سے قانون ساز اسمبلی کے اختیارات استعمال کرسکتا تھا۔ اسی اختیار کے تحت والی کے اقتدار اور سوات کی ریاستی حیثیت کا خاتمہ کر دیا گیا۔ (کتاب ریاستِ سوات از ڈاکٹر سلطانِ روم، مترجم احمد فواد، ناشر شعیب سنز پبلشرز، پہلی اشاعت، صفحہ 221 تا 223 انتخاب)