اسلام آباد سے سات کلومیٹر کے فاصلہ پر "روات کا قلعہ” اپنی عظمتِ رفتہ کی داستان سنانے آج بھی اُسی شان سے کھڑا ہے۔ یہ کبھی شہر سے کافی دور ہوا کرتا تھا، مگر اب شہر کی توسیع سے یہ چند کلومیٹر ہی کے فاصلہ پر ہے۔ یہ قلعہ راولپنڈی سے 11 میل کے فاصلہ پر جہلم کی طرف جی ٹی روڈ پر واقع ہے۔

شاہی قلعۂ روات کا مغربی طرف کا دروازہ۔ (فوٹو: محمد وہاب سواتی)

روات دراصل عربی لفظ "رباط” کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ رباط کے معنی چار دیواری میں محصور محفوظ مقام کے ہیں۔ قلعہ کا کُل رقبہ 24 کنال 11 مرلے ہے۔ یہ قدرے اونچی جگہ پر قائم ہے، جہاں سے ایک جانب مارگلہ کی سڑک اور دوسری جانب سوہاوہ نظر آتے ہیں۔
قلعہ کے دروازے پر لگے معلوماتی کتبہ پر درج ہے کہ یہ قلعہ سلطان محمودِ غزنوی کے بیٹے مسعود نے 1093ء میں تعمیر کروایا تھا۔ بعد میں مسعود اپنے باغی سپاہیوں کے ہاتھوں قتل ہوا اور یہ قلعہ گکھڑوں کے سردار سارنگ خان کے قبضہ میں آگیا۔ اس وقت گکھڑوں کی حکومت مشرق میں دریائے جہلم، شمال میں مارگلہ کے درہ، مغرب میں کھیڑی مورت اور جنوب میں ضلع جہلم کے درمیان قائم تھی۔ قلعہ کو اُس وقت ایک چوکی کی حیثیت حاصل تھی۔ اس کے صرف دو دروازے ہیں جو مشرق اور مغرب کے اطراف میں کھلتے ہیں۔ قلعہ بلندی پر ہونے کی وجہ سے آس پاس کے علاقہ کی نگرانی کی جاتی تھی۔ ڈاک لے جانے والے ہرکارے گھوڑے بدلنے کے لیے یہاں ٹھہرا کرتے تھے۔
قلعہ کی دیواریں تقریباً تیس فٹ بلند بنائی گئی تھیں۔ چند رہائشی مکانات سمیت مسجد اور درمیان میں اسلامی دیوان خانہ بھی موجود ہے۔گکھڑ قوم فارسی بادشاہ جرد کی اولاد ہے۔ بادشاہ کے انتقال کے بعد یہ قوم چین چلی گئی اور ساتویں صدی میں مسلمان ہوکر محمودِ غزنوی کے ہمراہ ہندوستان گئی۔
کرنل محمد خان کے مضمون "قلعۂ روات” میں درج ہے کہ جب شیر شاہ سوری کی فوجیں ہمایون کا تعاقب کر رہی تھیں، تو شیر شاہ سوری نے اپنا ایک ایلچی گکھڑ سردار سارنگ خان کے پاس بھیجا اور اس سے مدد مانگی۔ سارنگ خان پہلے ہی ہمایون سے مدد کا وعدہ کرچکا تھا۔سلطان سارنگ خان نے ایلچی کے ہاتھ شیر کے دو بچے اور ساتھ میں تیروں کا بھرا ہوا ترکش بھیجا، جس کا مطلب تھا کہ وہ آپ کی مدد نہیں کرنا چاہتا اور آپ سے جنگ کے لیے تیار ہے۔ اس پر شیر شاہ سوری نے گکھڑوں پر حملہ کیا۔ یہ معرکہ 1542ء کو روات کے مقام پر ہوا، جسے اس وقت "رباط سرائے” کہا جاتا تھا۔
سلطان سارنگ خان نے شیر شاہ سوری کے ہاتھوں یوں شکست کھائی کہ اپنے سولہ بیٹوں کے ساتھ مارا گیا اور اسی قلعہ میں دفنایا گیا۔ بعد میں جب گکھڑوں کا سردار "سلطان آدم خان” بنا، تو اس نے اپنے بھائی سلطان سارنگ خان کی یاد میں رباط سرائے (روات قلعہ) میں مزار تعمیر کروایا، لیکن مزار کے اندر کوئی قبر نہیں۔ سلطان سارنگ خان اور ان کے سولہ بیٹوں کی قبریں مزار کے باہر مقبرے میں موجود ہیں۔

سلطان سارنگ خان کا مزار، جو گزرے عہد کی نشانی ہے۔ (فوٹو: محمد وہاب سواتی)

گکھڑ قوم کا آخری سردار مقرب خان تھا۔ اس نے یوسف زئی اور خٹک قبیلوں کو شکست دے کر اپنی حکومت سندھ سے چناب تک پھیلا دی تھی۔ بعد میں مقرب خان سکھوں کے سردار گوجر سنگھ کے ہاتھوں 1765ء میں مارا گیا اور گکھڑوں کا پوٹھوہار میں ساڑھے سات سو سالہ اقتدار کا خاتمہ ہوا۔
روات قلعہ مربع شکل کا ہے۔ دو بڑے دروازوں سمیت مسجد کے تین بڑے کمرے ہیں، جن پر تین گنبد تعمیر کیے گئے ہیں۔ اس مسجد کو "شاہی مسجد، قلعۂ روات” کا نام دیا گیا ہے۔

قلعہ کے اندر موجود شاہی مسجد کا بیرونی منظر۔ (فوٹو: محمد وہاب سواتی)

قلعہ کی چاروں دیواروں کے ساتھ چھوٹے چھوٹے کمرے بنائے گئے ہیں، جو اس وقت سپاہی رہائش کے طور پر استعمال میں لاتے تھے اور دفاعی اعتبار سے بھی اہمیت کے حامل تھے۔
قیامِ پاکستان کے بعد یہ قلعہ محکمۂ اوقاف کی نگرانی میں چلا گیا۔ اس کا نام "شاہی قلعۂ روات” رکھا گیا۔ قلعہ کی مضبوط دیواریں اب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکی ہیں۔ علاقہ کے مکینوں نے تعمیراتی کام کے غرض سے یہاں کے قلعہ کو گرانا شروع کر دیا ہے۔ حکومت کی ذرا سی توجہ سے اس قلعہ کے تاریخی آثار کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے، تاکہ آنے والی نسلوں کے لیے یہ ورثہ محفوظ رہے۔

………………………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔