دیر پر شاہی خاندان ’’اخون خیل‘‘ نے تقریباً 350 سال تک حکومت کی ہے۔ شاہی خاندان کے حکمرانی اخون الیاس بابا لاجبوک سے شروع ہوکر نواب شاہ خسرو پر ختم ہوتی ہے۔اخون کے معنی سکالر اور عالم دین کی اولاد کے ہیں۔
اخون الیاس بابا لاجبوک (1626-1676): دیر کے شاہی خاندان کے مورثِ اعلیٰ اخون الیاس نہاگدرہ میں پیدا ہوئے۔ بعد میں دینی تعلیم کے حصول کے لیے ہندوستان چلے گئے۔ ہندوستان میں حضرت بنوریؒ کی شاگردی میں کئی سال گزارنے کے بعد ان کے ساتھ مکہ مکرمہ چلے گئے۔ مکہ میں چھے ماہ گزارنے کے بعد جب اخون الیاس وطن واپس پہنچے، توا ن کے علم اور تقویٰ کے چرچے دور دور تک پھیل گئے۔ اخون الیاسؒ کی محفل میں ہر وقت لوگوں کا ہجوم رہتا تھا اور دور دور سے لوگ اپنی مرادیں اور تکالیف کا شرعی حل نکالنے ان کے دربار تشریف لاتے۔ روحانی بزرگ ہونے کے ناتے لوگوں نے دل کھول کر آپ کو عطیات دیں۔ یہی وجہ تھی کہ قلیل وقت میں آپ کے پاس بہت مال و دولت جمع ہوئی اور سب اقوام نے مشترکہ طور پر آپ کی تاج پوشی کی اور اپنا حکمران اور رہنما مقرر کیا۔ اس روحانی بزرگ نے 1676ء میں وفات پائی۔ آج بھی ’’لاجبوک درہ‘‘ میں ان کا مزار موجود ہے۔
مولانا اسماعیل (1676-1752): مولانااسماعیل اپنے والد کی وفات کے بعد ان کے جانشین مقرر ہوئے۔علم اپنے والد سے حاصل کرکے زہد و تقویٰ کے اعلیٰ معیار پر فائز تھے۔ والد کی طرح ملااسماعیل بھی علاقے میں کافی مشہور تھے اور ان کے دربار میں بھی ہر وقت لوگوں کا ہجوم رہتا تھا۔ وفات کے بعد ان کو ’’بی بیوڑ‘‘ میں سپر دخاک کر دیا گیا۔
خان غلام خان (1752-1804): مولاناسماعیل کی وفات کے بعد ان کے بڑے بیٹے خان غلام خان گدی نیشن ہوئے۔ دولت اور جائیداد کی فروانی نے آپ کو روحانیت سے دنیا داری کی طرف مائل کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے ’’بی بیوڑ‘‘ میں باقاعدہ ’’خان اِزم‘‘ کی بنیاد رکھی۔ آپ نے 1804ء کو ’’بی بیوڑ‘‘ میں انتقال کیا ۔
خان ظفر خان (1804-1814): خان غلام خان کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے خان ظفر خان نے ’’بی بیوڑ‘‘ کو خیر باد کہہ کر دیر خاص میں رہائش اختیار کی اور وہاں اپنی حکومت کی داغ بیل ڈالی۔ یوسف زئی جنگجوؤں کو لے کر کوہستانی کافروں کے شاہی محل پر ہلہ بول دیا۔ بعد میں اسی قلعہ کو گراکر وہاں ایک مضبوط قلعہ تعمیر کیا اور دیر خاص کو اپنا دارلخلافہ کی حیثیت دی۔ آپ 1814ء کو انتقال کر گئے۔
خان قاسم خان (1814-1822): خان قاسم خان اپنے والد ظفر خان کے انتقال کے بعد تخت نشین ہوئے۔ آپ نے پہلی مرتبہ اسمار اور سخاکوٹ تک کے علاقے اپنی ریاست میں شامل کردیے۔ آپ کی بہادری اور شجاعت سے متا ثر ہوکر مہتر چترال شاکٹور نے اپنی بہن آپ کے نکاح میں دے کر چترال اور دیر کی دشمنی اور عداوتوں کی بیخ کنی کی۔ آپ ایک مدبر، زیرک اور بیدار مغز حکمران ثابت ہوئے۔1822ء میں آپ اپنے بیٹے آزاد خان کے ہاتھوں قتل ہوئے اور اب دیر کے شاہی مقبرے میں مدفون ہیں۔
خان غزن خان (1822-1868): خان قاسم علی خان کے انتقال کے بعد دیر کے خوانین اور قبائلی عمائدین قابل اخوانزادہ کی قیادت میں چترال جاکر غزن خان کو اپنے ہمراہ لے آئے اور اسے دیر کے تحت پر بٹھا دیا۔ اس وقت خان غزن خان کی عمر سترہ سال تھی اور والد کے انتقال کے بعد مہتر چترال (جو اُن کا ماموں تھا) نے ان کے بھائیوں کے ہاتھوں قتل ہونے کے خوف سے چترال لے گئے۔ خان غزن خان نے بھی والد کے نقش قدم پر چل کر ریاست کو مزید وسعت دی۔ آپ 1828ء میں انتقال کرگئے۔ خان غزن کے دور میں دیر کو ترقی ملی اور ڈھیر سارے علاقے ریاستِ دیر میں شامل کیے گئے۔
خان رحمت اللہ خان (1870-1884): خان غزن خان کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے رحمت اللہ خان نے عنانِ حکومت سنبھالی۔ تحت نشین ہونے کے بعد آپ نے امورِ ریاست پر خاص توجہ دے کر کافی اصلاحات کیں۔ یہ الگ بات ہے کہ آپ کے بیٹے اور آ پ کے درمیان اقتدار لینے کے حوالہ سے کھینچا تانی رہی۔ آپ 1880ء کو اس انتقال کرگئے۔

"نوابِ دیر” محمد شاہ جہان کی نایاب تصاویر، جن میں ان کے بیٹوں محمد شاہ خسرو، شہاب الدین خان، محمد شاہ خان کو بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ (Photo: khatirnama.blogspot.com)

خان محمد شریف خان (1884-1904): خان محمد شریف خان کو اقتدار کے حصول کے سلسلے میں اس کے بھائی نے قتل کرنے کی کافی کوششیں کیں، لیکن نا کام رہے۔ ایک دفعہ اس کے بھائی جمروز نے اسے گولی کانشانہ بنایا، لیکن خوش قسمتی سے گولی خان محمد شریف خان کو نہیں لگی اور وہ بال بال بچ گئے۔ اس کے نتیجے میں جمروز اور اس کا بیٹا قتل ہوئے۔ خان محمد شریف خان دیر کا پہلا باضابطہ نواب تھے۔ کیوں کہ انگریز حکومت نے 1885ء میں انہیں چکدرہ قلعہ میں ’’نوابِ دیر‘‘ (انگریزی لفظ ڈیوک) کے لقب سے نوازا ۔ خان محمد شریف خان 55 سال کی عمر میں فالج کی بیماری سے تیمرگرہ کے مشہور مذہبی بزرگ ’’تیمرگرہ صاحب‘‘ کی گود میں انتقال کرگئے ۔
نواب اورنگزیب خان (1904-1924): نواب محمد شریف خان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے محمد اورنگزیب خان ’’شاہی کرسی‘‘ پر برا جمان ہوئے۔ نوابِ دوم کی قوتِ گویائی میں فرق تھا۔ اس لیے تاریخ کی کتابوں میں اسے ’’چاڑا نواب‘‘ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ نواب اورنگزیب خان نہایت ہی انصاف پسند اور راست گو انسان تھے۔ تاریخ کی کتابوں میں رقم ہے کہ اسلامیہ کالج پشاور کی تعمیر میں نوابِ دوم نے دل کھول کر چندہ بھی دیا ۔
نواب محمد شاہ جہان (1924-1969): نواب محمد اورنگزیب کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے شاہ جہان تحت نشین ہوئے۔ آپ ایک بیدار مغز، زیرک اور بارُعب نواب کے طور پر ریاست کے اندر اور باہر پہچانے جاتے تھے۔ نواب کو ایوب خان نے 1963ء میں معزول کرکے نظر بند کیا اور ان کی جگہ ولی عہد نواب شاہ خسرو کو دیر کا نواب مقرر کیا، لیکن نظامِ حکومت میں ناکامی کی وجہ سے حکومتِ پاکستان نے 1969ء میں دیر سے نوابی سسٹم ختم کرتے ہوئے دیر کو الگ ضلع بنانے کا اعلان کیا۔ یوں اسے باقاعدہ پاکستان میں ضم کیا گیا ۔
یہ تھی ریاستِ دور پر اخون خیل قوم کی حکمرانی کی مختصر سی کہانی۔

…………………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔