گاؤں سج بنڑ تحصیل مٹہ میں سڑک کنارے چمڑا یا چمڑے کی بنی ہوئی اشیا بیچنے والے محمد عالم نامی چرم فروش کی ایک بڑی دکان ہے۔ ساتھ ہی اس دکان میں گھریلو استعمال کا تمام پرانا سامان موجود ہے۔ گویا یہ ایک طرح سے پرانی ثقافت کا عجائب گھر ہے، جہاں ہر قسم کے لوگ آتے ہیں اور چمڑے اور لکڑی سے بنی ہوئی اشیا خرید کر لے جاتے ہیں۔ راقم اس موقع پر’’شاخیلوں‘‘ کی ہنر مندی میں اس طرح کھو گیا کہ فوراً پہلی جماعت میں پڑھنے کا زمانہ یاد آیا۔ اس دور میں ہم صبح سویرے جب سکول پہنچتے، تو کبھی کبھار گاؤں کے تین آدمی محمد رحمان، سید رحمان اور خئ کو چمڑا نرم کرتے اور صاف کرتے دیکھتے تھے جس کے بعد وہ چمڑے سے ’’تسمے‘‘ تیار کرتے تھے۔ اس دکان کا ماحول بھی مختلف نہ تھا۔ـجگہ جگہ چرم سے بنا سامان بکھراپڑا ہوتا۔ ـچار پانچ بندے چمڑے کو کام میں لانے کی غرض سے اسے صاف کرتے تھے۔ چرم ساز کا دوسرا کام صاف اور نرم کیے ہوئے چمڑے سے تسمے تیار کرنا ہوتا ہے۔ دو لڑکے بڑی مہارت سے تسمے تیار کرتے،ـدو ’’کھٹ بُنے‘‘ چمڑے سے کھٹ (کھاٹ) بُن رہے ہوتے اور ایک بندہ سرعت کے ساتھ برش کے ذریعے بُنے ہوئے سامان کو تیل دیتا نظر آتا۔ ـ مختصر یہ کہ یہاں کچی کھال سے چمڑا بنانے یا چمڑا اور کھال سے بنی ہوئی اشیا کا کام زوروں پر ہوتا۔ اس حوالہ سے ہم مزید تفصیل میں جانانہیں چاہتے۔
پشتون سماج میں شاخیل (چرم ساز) میراثی (گویا) اور چمیار (چمار یا موچی) ایک جیسی معاشرتی حیثیت کے حامل لوگ تصورکیے جاتے ہیں۔ ـعجیب اتفاق ہے کہ تینوں کا تعلق کسی نہ کسی حوالے سے چمڑے کے ساتھ رہتا چلا آ رہا ہے۔ مثلاً چمار اردولغت کے مطابق ہندی زبان کا لفظ ہے، جس کا مطلب ہندو سماج کی ایک نیچ ذات جس کا کام چمڑا کمانا اور جوتے گانٹھنا ہے۔ میراثی (گویا) بھی تو شاخیل کے ہاتھ کا بنا ہواسامان یعنی ڈفلی، دمامہ، رباب اور ڈھول وغیرہ استعمال کرتا ہے۔ جب کہ شاخیل بھی تو چرم سازی ہی کے باعث روزی روٹی کماتا ہے۔ روزِ اول سے ہر زمانے میں ذکر شدہ افراد میں سے ہر ایک کو سماجی اعتبار سے ہر جگہ کم درجہ دیا گیا ہے۔ حالاں کہ ہر قسم کا کسب اپنی ضرورتوں اور زمانہ کے حالات سے مجبور ہوکر شروع کیا جاتا ہے، جیسے ہمارے گاؤں کے اکا خیل شاہ محمود خان نے لاہور میں موچی کاکام سیکھا اور اُس میں کمال حاصل کرکے درشخیلہ میں بھی اسے جاری رکھا۔ مطلب جس قدر ہمارے عام لوگوں کی سوچ ہے، کوئی بھی کسب اُس قدر برا نہیں۔ـاگر انسان بہتری کی کوشش کرے، تو ہر کام میں بہتر پہلو نکل سکتے ہیں۔ پنجاب میں چوہڑا، مہتراور بھنگی کا کام کرتے ہیں، یہی کام کشمیر میں واتلوں سے لیاجاتا ہے۔’’واتل‘‘ کشمیر کا ایک خانہ بدوش فرقہ ہے ـ جس کی اعلیٰ ذات چمڑا صاف کرتی ہے ـ اور بعض لوگ اُن میں جوتے اور چپل وغیرہ بناتے ہیں۔
عربی زبان کا لفظ دباغ، پارسی کا چرم ساز اور ہندی کا چمار ہمارے یہاں شاخیل کے لیے مستعمل ہے، مگر دوسری طرف شاخیل مردان، پشاور اور ہشت نگر میں حجرے کے ملازم کو کہتے ہیں۔ شاید وہ چرم سازی کے ساتھ ہاتھ پیر دبانے اور چھوٹا موٹا کام کرنے میں مشغول پایا جاتا ہوگا۔ بعض بڑے بوڑھوں سے تو یہاں تک سنا ہے کہ اس سے میراثیوں کاکام بھی لیا جاتا تھا۔ـحالاں کہ شاخیل کا بنیادی پیشہ چرم سازی تھا، جو وہ شادی بیاہ کے لیے آرڈر لے کر سامان تیار کرتا تھا اور اس کو بقدرِ زر فروخت کرتاتھا۔
شاخیلوں کے پاس ملا، آہن گر، جالہ وان، نائی اور غوبہ وغیرہ کی طرح ’’دفترِ شیخ ملی‘‘ کی رو سے زمین میسر تھی اور نہ انہیں باقاعدہ غلہ دیا جاتا تھا، ـ تو پھر یہ لوگ شاید کسی خاص معاہدے کے تحت ’’بیگار‘‘ (بلامعاوضہ مزدوری) کرتے ہوں گے، ـ جس طرح کے معاہدے دہقان، پراچہ یا ہندو تاجروں کے ساتھ کیے جاتے تھے اور جن کی رو سے سال بھر میں انہیں کچھ مقدار میں گڑ، تیل، مٹھائی، مہمانوں کے لیے بستر اور بیگار وغیرہ کی شکل میں کچھ نہ کچھ دینا پڑتاتھا۔ـ
بیگاراور حاصلات کی مد میں معاہدے تو ممکن ہیں، لیکن دوسری طرف ناچ گانا ہے، جو کہ ایک فن اور مہارت ہے۔ یہ مہارت انسان کی فطرتِ ثانیہ بن کر موروثی شکل اختیار کرتی ہے۔ پھر تو بندہ انعام یا صلہ لیے بغیر فن کا اظہار کرتا ہے اور فنی صلاحیت نکھارنے کے لیے بہانہ تلاش کرتا ہے۔ اُسے لوگوں کی پروا کہاں ہوتی ہے؟ اس لیے ناچ گانے یا فنی صلاحیتوں کے اظہار کو شاخیل کے کسب پر منطبق نہیں کیا جاسکتا۔ـعجیب بات تو یہ ہے کہ ہم ناچ گانے سے حِظ اُٹھاتے ہیں لیکن فن کار کی قدر نہیں کرتے اور اسے کم تر تصور کرتے ہیں۔ اگر فن اور فن کار برے ہیں، تو ان کا تماشا کرنا یا ان کے فن سے حِظ اٹھانا کیسے اچھا عمل ہے؟ اور اگر دونوں کام اچھے نہیں، تو ان میں سے کوئی ایک بھی برا کام فطرتِ ثانیہ بن جانے کی وجہ سے کیوں برا تصور کیا جاتا ہے؟ـ اس لیے شاخیلوں، چماروں اور میراثیوں کو کسی لحاظ سے کم تر تصور نہیں کیا جانا چاہیے۔ کیوں کہ یہ ملک وقوم کے ہنرمند ہاتھ ہیں۔ ـ انہیں ان کی ہنرمندی سمیت قومی دھارے میں لانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ کیوں کہ ملک کی معیشت ایسے مقامی ہنر مندوں کی حوصلہ افزائی سے جدید خطوط پر استوار ہوسکتی ہے۔ یوں ہماری ثقافت بھی زندہ رہ سکتی ہے۔ ـ
دباغت کاکام کرنے والا شاخیل جو تقریباً سوات کے ہر گاؤں میں دو یا تین گھرانوں کی صورت میں موجود تھا، جو بھینس کے موٹے چمڑے سے کھاٹ اور کھٹیا بُنتا تھا، ـ بکری کے ہلکے چمڑے سے آلاتِ موسیقی اور گھریلو استعمال کا سامان جیسے چھاج، چھلنی وغیرہ بناتا تھا، گاہ (غوبل) کی ناڑی اور جالہ وان کے ’’جالے‘‘ کے لیے’’شناز‘‘ بنانے کا کام ایک شاخیل کے علاوہ کون کرسکتا تھا؟ اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ شاخیل زرعی معاشرے کا ایک اہم کردار بھی تھا۔ـا گر اس کا کام اتنا اہم نہ ہوتا، توبرطانوی استعمار صنعتوں کے لیے خام مال حاصل کرنے اور اپنی مصنوعات کے لیے مارکیٹ تلاش کرنے کی غرض سے ہندوستان نہ پہنچتا اور اس سے پینگیں نہ بڑھاتا۔
اس ترقی یافتہ دور میں جہاں دوسری تمام چیزوں کے ساتھ ساتھ چمڑے کے کاروبار کو اہمیت ملی، تو دوسری طرف مقامی پیشے اور صنعتیں تباہ ہوکر رہ گئیں۔ چمار سازی کی اہمیت سے کیوں کر انکار کیا جاسکتاہے کہ ہمارے قائد کے والد بھی تو چمڑے ہی کی تجارت کرتے تھے۔ چمڑا بین الاقوامی تجارت میں اہم جز ہے ـ جس میں کبھی پاکستانی مصنوعات کوبھی بڑی فضلیت حاصل تھی۔ ـ
شاباش کے مستحق ہیں خونہ آباد سج بنڑ کے محمد عالم صاحب جن کے والد خونہ گل نے چمڑے کا پُرانا ہنر جدید انداز میں متعارف ہی نہیں کرایا بلکہ گاؤں سے شاخیلوں کو اکھٹا کرکے اُنھیں روزگار اور ایک تشخص بھی دیا جو خونہ آباد میں اگر ایک طرف سواتی صنعت کو چار چاند لگا رہے ہیں، تو دوسری طرف اچھی خاصی کمائی بھی کر رہے ہیں۔ـاے کاش، کوئی کُلال، تیلی، نانداف اور جولاہوں وغیرہ کی صنعت کو بھی اس طرح چمکانے کی سعی فرمائے۔

……………………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔