ایک عام خیال یہ ہے کہ والی صاحب ریاستی طلبہ کو بیرونِ ریاست حصولِ تعلیم میں ریاستی خزانہ یا اپنی جیب سے وظائف دیا کرتے تھے۔ والی صاحب کی جانب سے دیے جانے والے یہ وظائف درحقیقت اُس امدادی رقم میں سے دیے جاتے تھے، جو پہلے برطانوی حکومت اور بعد میں حکومتِ پاکستان ریاستی حکومت کو دیا کرتی تھی جس سے باچا صاحب یہ کہہ کر دست بردار ہوگئے تھے کہ "اسے قائدِ اعظم پاکستان میں تعلیمی مقاصد کے لیے استعمال کریں۔”
یوں تو یہ پیش کش قبول کرلی گئی لیکن صوبائی حکومت نے اس رقم کے بارے میں یہ فیصلہ کیا کہ اسے اُن ریاستی طلبہ کے لیے وظائف کی صورت میں استعمال کیا جائے گا، جن کی سفارش والی صاحب کریں گے۔ اس طرح یہ وظائف صوبائی حکومت دیتی تھی۔ والی صاحب صرف ان طلبہ کی سفارش کیا کرتے تھے۔ ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ والی صاحب نے اس رقم کو مناسب طریقہ سے استعمال نہیں کیا جس کی وجہ سے 1951-52ء میں پولیٹیکل ایجنٹ ملاکنڈ کے دفتر میں اس میں 20 ہزار روپے کی خرد برد کا واقعہ پیش آیا۔ والی صاحب نے اپنے بیان میں کچھ ایسا تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ جیسے انہوں نے اس امدادی رقم سے دست بردار ہونے کی قربانی دی ہو۔ جیسا کہ وہ کہتے ہیں: "میں نے فروغِ تعلیم کے لیے ہر ممکن کوشش کی ہے۔ میں نے اسے اُس امدادی رقم سے گلو خلاصی کے لیے بطور اک بہانہ استعمال کیا جسے ہم وجۂ شرمندگی گردانتے تھے………. جب میں حکمران بنا، تو میں حکومتِ پاکستان کے لیے اس سے دست بردار ہوگیا لیکن جب حکومتِ پاکستان کی طرف سے یہ کہا گیا کہ ہم اسے ختم نہیں کرسکتے، آپ اسے کسی مقصد کے لیے مختص کریں، تو جواب میں، مَیں نے کہا تعلیم: اسے تعلیمی وظائف کے لیے استعمال کیا جائے۔ وہ اسے ختم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہ رقم ابھی تک میرے نام جاری ہوتی ہے جسے وظیفوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔”
مندرجہ ذیل اقتباس سے اس بات کی وضاحت ہوجائے گی کہ درحقیقت اس امدادی رقم سے دست بردار ہونے کا فیصلہ والی صاحب کی جگہ باچا صاحب نے کیا تھا، اور اس رقم کو ریاستی طلبہ کے لیے وظائف کی شکل میں استعمال کرنے کا فیصلہ بھی صوبہ سرحد کی حکومت نے کیا تھا۔ والی صاحب نے اس بات کی صحیح وضاحت نہیں کی ہے۔ مغربی پاکستان کے سیکرٹری داخلہ کے بیان کے مطابق: "مجھے یہ کہنے کے لیے کہا گیا ہے کہ حکومتِ پاکستان اور ریاستِ سوات کے درمیان طے شدہ معاہدہ کے مطابق والئی سوات (باچا صاحب) حکومتِ پاکستان کی جانب سے سالانہ دس ہزار روپے امدادی رقم لینے کا حق دار ہے۔ تقسیم کے بعد جب 1948ء میں قائدِ اعظم پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے صوبہ سرحد کا دورہ کرنے آئے، تو والئیِ سوات نے صوبائی حکومت کی وساطت سے قائدِ اعظم کو یہ تحریر ارسال کی: "مجھے اس بات کا پوری طرح سے احساس ہے کہ نوزائیدہ مملکتِ پاکستان کو شدید مالی مشکلات کا سامنا ہے۔ میں ہر معاملہ میں اسے اپنا بھرپور تعان پیش کرتا ہوں۔حکومت پاکستان مجھے سالانہ دس ہزار روپے بطورِ امداد دیتی ہے۔ میں اپنی جانب سے ایک چھوٹی سی امداد کے طور پر رضاکارانہ اپنے خلوص اور اعانت کے اظہار کے لیے اس سالانہ امدادی رقم سے ہمیشہ کے لیے دست بردار ہوتا ہوں، اور درخواست کرتا ہوں کہ قائدِ اعظم اِسے پاکستان کے عوام کے لیے کسی تعلیمی منصوبہ کی تکمیل کے لیے استعمال میں لائیں۔”
اس پیشکش کو قبول کر لیا گیا اور سابقہ صوبہ سرحد کی حکومت نے حکم دیا کہ پولیٹیکل ایجنٹ ملاکنڈ ہر سال یہ رقم نکال لیا کریں اور اسے بطورِ امانت رکھ دیا کریں اور پھر اسی میں سے سوات کے طلبہ کو والی کی سفارش پر وظائف دے دیا کریں۔ اس کے بعد سے والی طلبہ کی سفارش کرتے ہیں۔ پولیٹیکل ایجنٹ ان ناموں کو صوبائی حکومت یا کمشنر پشاور کو ارسال کرتا ہے جو اسی رقم میں سے وظائف کی منظوری دیتا ہے۔”
والی صاحب نے سیاسی اختلافات کی وجہ سے بعض طلبہ سے منظور شدہ وظائف واپس لے لیے۔ یہ امدادی رقم دیر اور چترال کے حکمرانوں کو دی جانے والی امدادی رقومات کے مقابلہ میں بہت کم تھی۔ عبدالودود نے اس سلسلہ میں بہت کوشش کی کہ اسے ریاست دیر کو دی جانے والی رقم کے برابر کر دیا جائے، لیکن برطانوی حکومت راضی نہیں ہوئی۔ اس لیے موقع ملتے ہی اس سے جان چھڑالی گئی۔ والی صاحب نے بھی ریاست دیر کو دی جانے والی رقم کے مقابلہ میں اسے ایک شرم قرار دیا ہے۔  (کتاب “ریاستِ سوات” از ڈاکٹر سلطانِ روم، مترجم احمد فواد، ناشر شعیب سنز پبلشرز، پہلی اشاعت، صفحہ 185 اور 186 سے انتخاب)