پاکستان میں 1951ء میں کی گئی مردم شماری کے مطابق ریاستِ سوات اور کُرَّم ایجنسی، فرنٹیئر ریجنز میں دو ایسے علاقے تھے جہاں پرائمری اور اُس سے اوپر تعلیم حاصل کرنے والے لوگوں کی شرح دیگر علاقوں کے مقابلہ میں قابلِ ذکر حد تک زیادہ تھی۔ ریاستِ سوات میں لڑکیوں کی تعلیم کی شرح بھی خاصی بہتر تھی۔ 1961ء کی مردم شماری کے مطابق ریاستِ سوات میں شرحِ خواندگی 12 فی صد تھی۔ والی صاحب کا دعویٰ ہے کہ "ریاست کے ادغام کے وقت یہاں شرحِ خواندگی 20 فی صد تک تھی۔ یعنی چالیس برسوں میں اسے صفر سے 20 فی صد تک لے جایا گیا۔ اور یہ سب کچھ ہماری اپنی کوششوں کا نتیجہ ہے۔”
یاد رہے کہ ریاست کے قیام سے قبل جدید تعلیم تو یقینا یہاں موجود نہیں تھی، لیکن شرحِ خواندگی کسی صورت بھی صفر نہیں تھی۔ 1972ء کی مردم شماری رپورٹ میں جو اعداد و شمار ہیں اُس سے یہ عیاں ہے کہ ضلع سوات یعنی سابقہ ریاستِ سوات میں شرحِ خواندگی جو 1961ء کی مردم شماری کے مطابق 12 فی صد تک بتائی گئی تھی اور جسے والی صاحب نے 20 فی صد بتایا تھا، دونوں صحیح نہیں تھے بلکہ مرد و زن دونوں کی مشترکہ شرح صرف 7.1 فی صد تھی (12.4 فی صد مرد اور 1.3 فی صد عورتیں تعلیم یافتہ تھیں)۔ شہری علاقوں میں یہ شرح 25.3 فی صد تھی (38.7 فی صد مرد اور 9.7 فی صد عورتیں خواندہ تھیں) جب کہ دیہی علاقوں میں شرح خواندگی صرف 6.1 فی صد تھی (10.8 فی صد مرد اور 0.8 فی صد عورتیں خواندہ تھیں)۔ یقینا یہ سب کچھ حکمرانوں کی کوششوں کا نتیجہ تھا، لیکن اس کام میں انہیں یہاں کے باشندوں، برطانوی اور بعد ازیں حکومت پاکستان اور صوبائی حکومت کی مدد بھی حاصل تھی۔ (کتاب “ریاستِ سوات” از ڈاکٹر سلطانِ روم، مترجم احمد فواد، ناشر شعیب سنز پبلشرز، پہلی اشاعت، صفحہ 184 سے انتخاب)