امن و امان قائم رکھنے کے لیے ریاست میں ہر جگہ قلعے تعمیر کیے گئے۔ ہر قلعہ میں صوبیدار یا جمعدار کے زیرِ قیادت فوجی ہوتے تھے جنہیں قلعہ وال کہا جاتا تھا۔ وہ اپنے خاندانوں کے ہمراہ قلعوں کے اندر رہتے تھے۔ غیر شادی شدہ افراد کو قلعہ میں نوکری کی اجازت نہیں تھی۔
عبدالودود کا مقصد یہ تھا کہ "ریاست بھر میں قلعوں کا ایک جال بنا دے، نمایاں اونچی جگہوں یا پہاڑی چوٹیوں پر یہ اتنے فاصلے پر ہوں کہ ایک قلعہ سے دوسرے قلعے کو دیکھا جاسکے” اور یہ کہ "بلا خوف و خطر ایک دوسرے کی مدد کرسکیں۔” سرحدوں کی حفاظت اور اندرونی خطرات سے نمٹنے کیلئے 80 قلعے تعمیر کیے گئے تھے۔ ان میں خندقیں تھیں، فصیلیں تھیں، رکاؤٹیں تھیں، بُرج تھے اور سب کے سب بہت مضبوط بنائے گئے تھے۔ تعداد کے بارے میں اختلاف ہے یہ 68، 73 اور 75 بھی بیان کی گئی ہے۔
ہر قلعہ میں ایک ٹیلی فون ہوتا اور ایک مُنشی ہوتا جو روزنامچے لکھتا۔ ایک ذمہ دار آزمودہ وفادار صوبیدار یا جمعدار عملہ کا سربراہ ہوتا۔ امن و امان برقرار رکھنا، انتظامی حکام کے احکامات کی تعمیل، چھوٹے موٹے فیصلے کرنا اور سب سے اہم یہ کہ ہر قسم کے انتشار و اضطراب کا قلع قمع کرنا اُس کے فرائض میں شامل تھا۔ عملہ کے فرائض میں سرکاری محصول (عُشر) اکٹھا کرنے میں اعانت، مجرموں سے حکومتی بقایا جات اور جرمانے وصول کرنا، حکمران اور دیگر حکام کے فرامین عوام تک پہنچانا، اور قرض داروں سے قرض خواہوں کے قرض وصول کرنا شامل تھا۔
قلعہ کا ادارہ کثیر المقاصد اور کثیر الجہت تھا۔ اس میں تعینات عملہ کی تعداد علاقہ کی ضروریات اور اہمیت کے لحاظ سے مختلف ہوتی تھی۔ بدعنوانی کے سدِ باب اور کارکردگی کی بہتری کے لیے قلعہ کے افسران کا بھی ہر دو یا تین سال بعد تبادلہ کر دیا جاتا، جس طرح کہ انتظامی حکام کے کیے جاتے تھے۔ لوگوں کی شکایت بھی اُن کے تبادلہ یا برطرفی کا سبب بن سکتی تھی۔ اس محکمہ کے اعلیٰ افسران 4 میجر اور ایک کمانڈر تھے۔ ہر میجر کے تحت کئی قلعے ہوتے تھے۔ ماتحت افسران کی کارکردگی کی ذمہ داری اُس کی تھی۔ 1958ء تک قلعے بھی سپہ سالار کے ما تحت تھے۔ اس کے بعد انہیں علاحدہ کرکے انہیں ایک کمانڈر کے تحت کر دیا گیا۔ قلعہ کی تمام افواج کا سپاہی سے کمانڈر تک تقرر حکمران کرتا تھا، اور اُن کی برطرفی کا اختیار بھی صرف اُس کو تھا۔ قلعہ کے سارے عملہ کو تنخواہ جنس کی شکل میں سال کی دو بڑی فصلوں کے موقع پر دی جاتی تھی۔ حکمران کے ایک فرمان کے مطابق ٹریفک ڈیوٹی دینے والے پولیس کو جرمانے کا پانچ فی صد اور یہ ڈیوٹی سرانجام دینے والے غیر پولیس افراد کو جرمانے کا دس فی صد دینا قرار پایا تھا۔
وقت کے ساتھ ساتھ قلعوں اور تھانوں کی تعداد میں فرق آتا گیا اور مرحلہ وار تھانوں نے قلعوں کی جگہ لے لی۔ تھانہ اور قلعہ میں بنیادی فرق یہ تھا کہ قلعہ میں تعینات سپاہیوں کو قلعہ وال اور ان کے افسروں کو جمعدار  اور صوبیدار کہا جاتا تھا جب کہ تھانہ میں متعین سپاہیوں کو پولیس اور افسر کو تھانیدار کہا جانے لگا۔ تاہم ہر تھانہ کا سربراہ تھانیدار نہیں ہوتا تھا۔ اکثر تھانوں کی عمارتیں دو کمروں پر مشتمل تھیں۔ جب کہ قلعے بڑی مضبوط عمارتیں تھے جن میں سپاہیوں کے خاندان بھی رہائش پذیر ہوتے تھے۔ سب سے اہم بات یہ بھی تھی کہ تھانہ، قلعہ کی طرح کثیر المقاصد جگہ نہیں تھی۔ قلعوں اور تھانوں کے عملے کی تعداد بھی مختلف بیان کی گئی ہے یعنی 1825 اور 2000۔ تعداد میں اضافہ ضرورت میں اضافہ کی و جہ سے ہوا ہوگا۔
فریڈرک بارتھ ریاستِ سوات کی فوجی تنظیم کا بہت واضح انداز میں یوں خلاصہ بیان کرتا ہے: "مقامی اور علاقائی بنیاد رکھنے کی وجہ سے اس میں سیاسی تقسیم لازمی تھی۔ اس لیے اس کے افسر اور عام فوجی دھڑے بندی (ڈلہ نظام) سے ہرگز محفوظ نہیں تھے۔ اس چیز نے اس بات کو خارج از امکان بنا دیا تھا کہ ان کو علاحدگی پسندی، بغاوت یا فوجی انقلاب میں استعمال کیا جاسکے۔ مراتب کا دبدبہ، اسلحہ اور فوجی مصروفیات کو ایک ایسی تنظیم کی دل کشی کے لیے ساتھ جوڑ دیا گیا تھا جسے زیادہ تر عوامی بھلائی کے کاموں میں مشغول رکھا جاتا تھا اور جو بیگار کی خدمات سر انجام دینے والا بڑا منظم ادارہ تھا۔ مراتب کی وجہ سے افسران کو اختیار و اقتدار کے ایک جائز استعمال کی سہولت حاصل تھی۔ اور سواتی معاشرہ میں جس شان و شوکت کی بے حد طلب ہے، اس سے وہ بھی مل جاتی تھی۔ جب کہ زیادہ تر غریب گھرانوں کو اس فوجی نوکری سے روزی روٹی کے مسائل پر قابو پانے میں قابلِ قدر سہولت مل جاتی تھی، اس طرح فوج لوگوں کو حکومت کا وفادار رکھنے کا اچھا ذریعہ تھی۔ ایک انتہائی منظم طریقہ سے چھے سے آٹھ ہزار تک افراد کو ریاستی مشینری میں جوڑ دیا گیا تھا اور اس سے حکمران کے خلاف کسی بغاوت کا بھی کوئی خدشہ نہیں تھا۔ اس میں وسیع پیمانے پر عوامی بھلائی کی خدمات سرانجام دینے کی صلاحیت موجود تھی اور بہ طورِ حرفِ آخر یہ کہ سیاسی مقاصد کے لیے رقومات اور بھتّوں کی مسلسل تقسیم کا یہ انتہائی کار آمد ذریعہ بنا رہا۔”  (کتاب "ریاستِ سوات” از ڈاکٹر سلطانِ روم، مترجم احمد فواد، ناشر شعیب سنز پبلشرز، پہلی اشاعت، صفحہ  159 تا 160 سے انتخاب)