کسی ریاست کے دفاع اور استحکام کے لیے فوج کا ہونا ضروری ہے۔ ریاستِ سوات اس ضرورت سے مستثنا نہیں تھی۔ گرد و پیش میں دشمن ریاستوں اور اندرونِ خانہ مضبوط ناراض عناصر کی وجہ سے ریاستِ سوات کی صورتِ حال اس ضمن میں زیادہ نازک تھی۔ اس کے لیے اچھی فوج رکھنا لازم تھا۔
ریاستِ سوات کی تشکیل کا فوری سبب نوابِ دیر کی ظالمانہ محکومی سے نجات حاصل کرنے کی شدید خواہش تھی۔ بیرونی دشمنوں کے ناپاک عزائم کی توڑ کرنے اور داخلی ناراض عناصر کو قابو میں رکھنے کے لیے ایک بڑی مضبوط فوج کی تشکیل ضروری تھی۔ روایتی قسم کے لشکر ایک منظم مضبوط فوج کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے۔ تاہم اُس وقت کی فوری ضروریات پوری کرنے کے لیے ریاستی فوج کے ساتھ ساتھ اس روایتی نظام کو بھی جاری رکھا گیا۔ آخری والئی سوات نے اس سلسلہ میں کہا: "دیر اور اَمب سے جنگوں کے لیے لوگوں کے لشکر بنانا اور اُس کے ساتھ ساتھ عشر ادا کرنا ضروری تھا، تاکہ ریاست اور اُس کی ملیشا کی مدد کی جاسکے۔ زمین کے ہر دو حصوں کے بدلہ میں انہیں اپنے خان کی قیادت میں لڑنے کے لیے ایک مسلح آدمی مہیا کرنا ہوتا تھا۔ جب وہ جنگ کے لیے کسی لشکر کا حصہ بنتا، تو اُسے خوراک اور کارتوسوں کے اخراجات خود پورے کرنے پڑتے۔ جب لشکر حرکت میں نہ ہوتا، تو وہ خان یا ملک کے رحم وکرم پر ہوتا۔ اس لیے میرے باپ نے اس نظام کو ختم کرکے ملیشا کی تعداد میں اضافہ کا فیصلہ کیا۔ یہ ایک قسم کا بیگار یا جبری مشقت تھی۔ جب لوگوں میں درشتگی اور کرختگی ختم ہوگئی، تو وہ لشکروں میں شامل ہونے سے کترانے لگے۔ پھر یہ بھی تھا کہ ان افراد کا اختیار ریاست کی جگہ مَلَک کے پاس ہوتا تھا۔”
اسی لیے آہستہ آہستہ لشکر کا نظام ترک کرکے فوج کی تعداد میں اضافہ کیا گیا۔ (کتاب "ریاستِ سوات” از ڈاکٹر سلطانِ روم، مترجم احمد فواد، ناشر شعیب سنز پبلشرز، پہلی اشاعت، صفحہ 153 سے انتخاب)