اپنی پوزیشن کو یقینی طور پر مضبوط بنانے کے لیے عبدالودود پر لازم تھا کہ وہ اپنے زیرنگیں علاقہ میں توسیع کرے۔ وہ ایک بلند حوصلہ، بے چین طبع، بے حد توانا اور زبردست صلاحیتوں کا مالک شخص تھا۔ سوات کے اردگرد واقع علاقوں اور پڑوسی ریاستوں کی غیر واضح سیاسی صورتِ حال نے اُس کی توسیع پسندی کی بڑی مدد کی۔ ستمبر 1917 میں میاں گل عبدالودود کو صرف نیک پی خیل، سیبوجنی، شامیزئی، بابوزئی اور متوڑیزئی قبائل نے بادشاہ تسلیم کیا۔ اب سب سے پہلے اُسے اپنی توجہ شموزئی علاقہ کی طرف کرنی تھی جو کہ 4 ستمبر کو عبدالجبار شاہ کے سوات سے چلے جانے اور سواتی لشکر کے گھروں کو لوٹنے سے مکمل طور پر نوابِ دیر کے قبضہ میں چلا گیا تھا۔ عبدالودود یقیناً اس علاقہ کو اپنے ایک ایسے مضبوط حریف کے قبضہ میں نہیں چھوڑ سکتا تھا جو پورے سوات پر اپنا دعویٰ رکھتا تھا۔
نواب دیر اور باجوڑ کے عبدالمتین خان کے درمیان لڑائی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سوات کے حکمران نے نومبر 1917ء کو میاں گل شیرین جان کی قیادت میں اپنے لشکر کو شموزئی علاقہ پر حملہ کا حکم دیا۔ دیر کی افواج اس پورے علاقہ کو سواتیوں کے قبضہ میں چھوڑ کر ادین زئی علاقہ کی طرف پسپا ہوگئیں۔ اس کامیابی کے بعد اباخیل اور موسیٰ خیل علاقے بھی اپنے اپنے جرگوں کے توسط سے ریاست سوات کا حصہ بن گئے۔ اس طرح ریاست میں عزی خیل اور جِنکی خیل کے علاوہ پورا سوات شامل ہوگیا۔
شموزئی میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے بعد باچا صاحب مارچ 1918ء میں ادین زئی علاقہ کو نواب دیر کے قبضہ سے چھڑانے کا عزم کیے اُس پر حملہ آور ہوا۔ یہ نواب کے قبضہ میں سوات کا آخری علاقہ تھا۔ وہ 24 مارچ کو قریباً دو ہزار افراد پر مشتمل فوج لے کر اس علاقہ میں داخل ہوا۔ چوں کہ دیر کی افواج کی طرف سے قلعوں کی حفاظت کا کوئی خاص انتظام نہیں تھا، اس لیے اُس نے جلد ہی اس پورے علاقہ پر قابو حاصل کرلیا لیکن جب 28 مارچ کو اُس نے شواکا قلعہ نواب کی افواج سے چھیننے کی کوشش کی، تو اس میں وہ ناکام رہا۔ اس لیے کہ نواب کی فوج نے عقب سے حملہ کر دیا اور سواتیوں کو شموزئی کی طرف پسپا ہونا پڑا۔
جولائی 1918ء میں نواب نے اپنے کھوئے ہوئے سواتی علاقے دوبارہ قبضہ کرنا چاہے۔ اُس کی فوج کو دیر کے کئی خوانین کے لشکروں کی مدد حاصل تھی۔ اُس نے 11 اگست کو شموزئی پر حملہ کرکے اُسے بالآخر فتح کرلیا۔ ستمبر کے دوسرے ہفتہ میں کچھ سواتی لشکر نواب کے لوگوں کو وہاں سے نکال باہر کرنے کے لیے آئے لیکن حملہ کیے بغیر ہی واپس لوٹ گئے، لیکن باجوڑ پر عبدالمتین خان کا حملہ ایک غیبی امداد ثابت ہوا۔ سواتیوں نے صرف شموزئی کو نواب سے واپس نہیں لیا بلکہ ادین زئی کو بھی اُس کے قبضہ سے چھڑا لیا۔ اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لیے شوا اور راموڑہ میں 400 کی نفری پر مشتمل باقاعدہ فوج تعینات کردی گئی۔ جب کہ قبائلی لشکر گھروں کو لوٹ گئے۔
شموزئی اور ادین زئی دوبارہ فتح ہونے کے بعد عزی خیل اور جِنکی خیل کے جرگوں نے اپنے اپنے علاقے ریاست کا حصہ بنانے پر صاد کرلی۔ اس طرح 1920ء کے ختم ہونے سے پہلے ہی یہ علاقے بھی اس میں شامل کرلیے گئے۔ اب ریاست کی حدود میں سوات بالا کی پوری وادی دریا کے دونوں جانب اور زیریں سوات میں دریاکے دائیں جانب ادین زئی علاقہ کے آخری حد تک کا سارا علاقہ شامل تھا۔ جون 1918ء میں باچا صاحب نے جِنکی خیل کی ایک کالونی تیرات کی طرف بھی عشر جمع کرنے کے لیے اپنے آدمی بھیجے، جہاں سے اس سے پہلے کسی نے بھی عشر نہیں لیا تھا۔ عشر کو دراصل اطاعت قبول کرنے کی ایک علامت کے طورپر دیکھا جاتا تھا۔
نوابِ دیر نے اپنے کھوئے ہوئے علاقے دوبارہ قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ اس مقصد کے لیے اُس نے 1921ء میں عبدالجبار شاہ اور سوات کے کچھ خوانین کے ساتھ ایک معاہدہ بھی کیا۔ تاہم شموزئی سے آگے کے دائیں جانب کے علاقے 1922ء کے ادین زئی معاہدہ کے تحت نواب کو لوٹانے پڑے۔ یہ معاہدہ برطانوی حکومت کی ایما اور مداخلت پر کیا گیا۔ (کتاب ریاستِ سوات از ڈاکٹر سلطانِ روم، مترجم احمد فواد، ناشر شعیب سنز پبلشرز، پہلی اشاعت، صفحہ 104 تا 105 سے انتخاب)