یہ مغل بادشاہ جہانگیر کے دور کا واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ اس کے دربار میں ایران کا ایک سفیر آیا، تو اس نے مغلوں کو خوش کرنے اور خود اپنی دشمنی نکالنے کے لیے پشتونوں کی اصل نسل پر کیچڑ اچھالتے ہوئے ایک قصہ سنایا۔ دراصل مغل اور ایرانی آپس میں حلیف اور پشتونوں کے حریف تھے۔ ایرانی سفیر نے کہا: ’’قدیم ایران کا ایک بادشاہ تھا ضحاک۔ اُسے کسی نے بتایا کہ مشرق میں کوہِ قاف سے پرے ایک پریوں کا دیس ہے، جہاں کی عورتیں بڑی خوبصورت ہوتی ہیں۔ ضحاک نے اپنے ایک سپہ سالار نریمان کو کچھ لشکر کے ساتھ وہاں سے لڑکیاں لانے کے لیے بھیجا۔ نریمان وہاں پہنچا۔ ایک سو (100) منتخب لڑکیوں کو ساتھ لیا اور واپس ہوا، لیکن رات کو جب کوہِ قاف پہاڑ پر ٹھہرے، تو ایک نابکار دیو نے لڑکیاں چھین کر ان کو بھگایا۔ صبح نریمان نے اپنے منتشر بھگوڑے سپاہیوں کو اکھٹا کیا اور اس دیو پر حملہ آور ہوئے۔ دیو کو بھگایا گیا اور لڑکیاں حاصل کرلیں۔جب ضحاک کو اس معاملے کا علم ہوا، تو اس نے کہا کہ چوں کہ ان لڑکیوں کو ایک دیو استعمال کر چکا ہے، اس لیے ان کو اُسی پہاڑ میں لے جا کر چھوڑ دو…… لڑکیاں پہاڑ میں چھوڑ دی گئیں۔ کیوں کہ وہ دیو سے حاملہ ہو چکی تھیں، اس لیے ایک سال بعد ان کے بچے ہوئے پھر ان بچوں سے ایک نسل ہوئی جو یہی پشتونوں کی نسل ہے۔‘‘
ایرانی اور مغل، پشتونوں کے مخالف تھے لیکن اس وقت پرانی دشمنی عملی طور پر ختم ہوگئی تھی اور پشتون مغل حکومت میں کافی اچھے عہدوں پر فائز تھے۔ اس وقت جب ایرانی سفیر یہ قصہ سنا رہا تھا، دربار میں چند پشتون امیر بھی موجود تھے، جن میں سب سے زیادہ بااثر امیر خان لودھی تھا۔ اور بھی کئی لوگ تھے۔ دربار میں یہ انتہائی تضحیک پر مبنی کہانی سن کر جب وہ باہر آئے، تو آپس میں بیٹھ کر صلاح و مشورہ کرنے لگے کہ اس قسم کی باتوں کا کیا حل نکالا جائے ؟ فیصلہ یہ ہوا کہ کسی کو افغانستان بھیج کر پشتونوں کا کوئی باعزت شجرہ ڈھونڈا جائے اور مغلوں کے منھ پر مارا جائے۔ کیوں کہ اس کے علاوہ بھی اکثر یہ مغل اور ایرانی دشمنی نکالنے کے لیے طرح طرح کی باتیں پشتونوں کی اصل نسل کے متعلق کرتے تھے۔ (سعد اللہ جان برقؔ کی کتاب "پشتون اور نسلیاتِ ہندو کُش” صفحہ نمبر 21 اور 22 سے انتخاب)