صدیوں سے رائج جرگہ نظام سے بھی بھرپور فائدہ اٹھایا گیا۔ اس کے لیے صورتِ حال کی ضرورت کے مطابق طریقے اپنائے گئے۔ مثال کے طور پر 1921ء کے بحران کے دوران میں جب نواب امب کی افواج کو کڑاکڑ سے ڈگر پسپا ہونے پر مجبور کیا گیا۔ اس دوران میں باچا صاحب نے بونیر کے بااثر افراد پر مشتمل ایک نمائندہ جرگہ طلب کیا۔ انہیں اُن کا وہ وعدہ یاد دلایا گیا کہ جب بھی نوابِ امب جارحانہ عزائم کے ساتھ ان کے علاقہ میں داخل ہوگا، تو وہ اُس کی فوج کو اپنے علاقہ سے نکال باہر کریں گے۔ علاوہ ازیں اُن سے کہا گیا کہ اب وقت آگیا ہے۔ اگر وہ پا مردی سے حملہ آوروں کو اپنی سرزمین سے باہر نہ نکالیں گے، تو ان کا قومی وقار خاک میں مل جائے گا۔ یہ تیر نشانہ پر لگا اور وہ اس بات پر راضی ہوگئے کہ نواب کو باقاعدہ طور پر کہیں کہ وہ ان کے علاقہ سے نکل جائے۔ اگر اُس نے انکار کر دیا، تو پھر وہ سوات کے حکمران کے ساتھ مل کر اُس سے لڑیں گے۔ نواب کو جیسے ہی اس اتحاد کی اطلاع پہنچی، وہ کڑاکڑ سے پیچھے ہٹ کر ڈگر (بونیر) چلا گیا۔
عبدالودود کو "اس بات پر یقین تھا کہ جب تک لوگوں کو غیر مسلح نہ کر دیا جائے، اُس وقت تک ریاست میں امن و امان کا قیام ایک خواب ہی رہے گا۔” یہ آسان کام نہیں تھا۔ خصوصاً خوانین اور دوسرے اہم لوگ اس بات پر ہرگز تیار نہ ہوتے۔ مسئلہ اصل میں یہ تھا کہ یہ کام کس طرح کیا جائے۔
اس مشکل کا حل بھی جرگہ کے ذریعے نکالا گیا۔ عبدالودود نے اپنے سارے دوستوں کو جمع کیا اور انہیں یقین دھانی کرائی کہ ان کی املاک اور زندگیوں کو ریاستی ملیشا اور پولیس تحفظ فراہم کرے گی۔ ان کی تائید حاصل کرنے کے بعد ایک جرگہ طلب کیا گیا جس میں سارے سرکردہ خوانین اور دیگر ممتاز شخصیات شریک ہوئیں۔ اُن سے مطالبہ کیا گیا کہ ریاست کی فلاح و بہبود کے لیے انہیں اپنا اسلحہ سرکاری اسلحہ خانہ میں جمع کرنا ہوگا۔ اُس کے دوستوں نے سب سے پہلے اس پر عمل کیا۔ اس کے بعد دوسروں نے بھی اس کی پیروی کی۔ حالاں کہ بابوزئی کے جمروز خان کی طرح کچھ لوگوں نے اس پر ناک بھوں چڑھائی لیکن انکار کوئی نہیں کرسکا اور عام لوگ بھی اس کام میں شامل ہوگئے۔
ایسے لوگوں کو قوانین اور ضابطوں کا پابند بنانا جو ابھی تک آزاد روی کے ساتھ ز ندگی گزارتے آئے تھے، آسان ہر گز نہیں تھا۔ اس کا بھی علاج جرگہ کے ذریعہ کر لیا گیا۔ جب کوئی نیا علاقہ ریاست میں شامل ہوتا، چاہے اُسے فتح کیا گیا ہو یا اپنی مرضی سے شامل ہوا ہو، عبدالودود وہاں کے لوگوں کا ایک جرگہ بلاتا اور اُن سے کہتا کہ وہ علاقہ میں ہونے والے جرائم کے لیے خود قوانین وضع کریں۔ اس طرح جو قوانین بنائے جاتے اُس پر جرگہ کے سارے ارکان دستخط کرتے اور وہاں کے مجرموں کو پھر انہی قوانین کے تحت سزائیں دی جاتیں۔ اس طرح لوگ ان قوانین کو اوپر سے نافذ کردہ نہ سمجھتے بلکہ انہیں اپنے قوانین گردانتے ہوئے ان پر عمل درآمد کو اپنا فرض سمجھتے اور سزاؤں پر برا نہ مناتے۔
فوج اور اسلحہ کے ا ستعمال کی جگہ ریاست کی توسیع اور اس کی سرحدوں کو پھیلانے میں جرگہ کو ایک بہت ہی مؤثر اور کارگر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ چاہے 1921ء میں بیرونی اور اندرونی دشمنوں کا پیدا کردہ بحران ہو، قوانین سازی ہو یا لوگوں سے اسلحہ اکٹھا کرنے کی کامیاب مہم ہو ہر جگہ جرگہ ہی کامیابی کی چابی ثابت ہوا۔  (کتاب ریاستِ سوات از ڈاکٹر سلطانِ روم، مترجم احمد فواد، ناشر شعیب سنز پبلشرز، پہلی اشاعت، صفحہ 99 تا 100 سے انتخاب)