پٹھان ایک قدیم قوم ہیں، لیکن اتنی زیادہ بھی نہیں جتنی قدامت کا دعویٰ کرنے والے پسند کرتے ہیں۔ ایک دن ایک یوسف زیٔ خان کے ساتھ اس کے پائین باغ میں دوپہر کا کھانا کھاتے ہوئے میں نے اس سے خاندان کے گزرے ہوئے بزرگوں کے بارے میں پوچھا۔ خان اس وقت ایک نئے پستول کے معائنہ میں مصروف تھا جو اُس کے لیے حال ہی میں خصوصی طور پر سپین سے بھیجا گیا تھا۔ اُس کا میکینزم چک کرنے کے بعد اس نے صحن کی دیوار کی طرف نشانہ لیا۔ مجھے شک ہوا کہ وہ فائر کرنے کی شدید خواہش دبانے کی کوشش کر رہا ہے۔ مجھے یہ احساس بھی ہوا کہ اس عالی نسب خان سے اس کے آبا و اجداد کے بارے میں پوچھنے کا انداز مناسب نہیں تھا، مگر اَب کیا ہوسکتا تھا، سوال تو میرے منھ سے نکل گیا تھا۔ تاہم اس نے ایک نوکر کو خاندانی دستاویزات میں سے مطلوبہ ریکارڈ لانے کے لیے بھیجا۔ چند منٹ بعد نوکر نے کئی صفحات پر مشتمل کاغذات کا پلندہ لاکر میرے آگے رکھ دیا۔ یہ شجرہ اُلٹی طرف سے پڑھے جانے والے انداز میں مرتب کیا گیا تھا۔ پہلا نام مجھے معلوم تھا کہ یہ میرے میزبان کے والد ہیں، میجر جنرل نواب سر……کے خطابات کے ساتھ ۔
اس کے بعد دو تین ناموں کے ساتھ بھی خطابات تھے۔ پھر ناموں کا ایک طویل سلسلہ کئی صفحات تک پھیلا ہوا تھا، بغیر کسی امتیازی القاب کے۔ آخری ناموں سے ایسا لگتا تھا جیسے اسرائیل کے بزرگوں کا سلسلہ وارتذکرہ ہورہا ہے۔ سلیمان ابن داؤد ارمیا ابن سرب، یوسف ابن یعقوب اسحاق ابن ابراہیم اور سب سے آخر میں آدم، جو آج بھی پٹھانوں میں ایک زیادہ پایا جانے والا نام ہے۔ میں نے خان کے ساتھ اس موضوع کو آگے بڑھانا مناسب نہیں سمجھا۔ کیوں کہ اس سے زیادہ وہ اپنی نئی آٹومیٹک پستول میں دلچسپی رکھتا تھا۔

مہمند قبیلہ کے عمائدین

مہمند قبیلہ کے عمائدین

کچھ عرصہ بعد، کئی میل دور ایک مہمند گاؤں میں میں نے یہ موضوع دوبارہ چھیڑا۔ ایک بوڑھا آدمی جو بالکل اَن پڑھ تھا، مگر قبائلی تاریخ پر مکمل عبور رکھنے کی وجہ سے بہت عزت و احترام کا حامل تھا۔ مہمند قبائل کے آبا و اجداد کے نام فر فر سنانے لگا اور وہ بھی زبانی، یادداشت کے بل پر۔ میں اس کے بیان کے ساتھ ساتھ یوسف زیٔ خان کے دیئے ہوئے اوراق الٹتا رہا۔ بلا شبہ دونوں شجرہ نسب ’’کند‘‘ کے نام پر یکجا ہوگئے۔ کند جو بیٹا تھا ’’خرشبن‘‘ کا، جو بیٹھا تھا ’’سربن‘‘ کا، جو ’’قیس‘‘ یا ’’عبدالرشید‘‘ کا بیٹا تھا اور جو تمام پٹھانوں کا جداعلیٰ ہے۔
اور اس کے بعد بھی، دو سو میل دور جنوب کی طرف ایک وزیری ملک نے میرے سوال کے جواب میں اپنا شجرہ بتاتے ہوئے سلیمان ولد کاکئی ولد غورغشت ولد قیس عبدالرشید کے ناموں کے ساتھ ان ذکر شدہ شجروں میں اپنا تعین کرلیا۔

انڈیا آفس لائبریری لنڈن، 1866

انڈیا آفس لائبریری لنڈن، 1866

انڈیا آفس لائبریری لندن کے پرانے جلدوں کے مطالعہ سے میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اُنیسویں صدی کے اکثر برطانوی محققین اس بات پر مصر تھے کہ پٹھان اسرائیل کا ایک قبیلہ ہیں۔ ان کی رائے تھی کہ قیس یا کیئس ساتویں صدی عیسوی کا ایک سردار تھا اور وہ ’’افغانہ‘‘ ولد ’’جرمیا‘‘ ولد ’’ساول‘‘ کی پینتیسویں پشت سے تعلق رکھتا تھا۔ ساول اسرائیل کا پہلا بادشاہ تھا۔ برطانوی ماہرین بھی بیسویں صدی کے آغاز تک اسی نظریے کے حامی رہے کہ پٹھان اسرائیل کے ساتھ کسی نہ کسی طرح تعلق رکھتے تھے۔ اس نظریے کو ان شجرہ ہائے نسب کے تسلسل نے بھی تقویت دی اور پٹھانوں کی اسرائیل کے بزرگوں کے ساتھ صوری مشابہت، ضابطۂ اخلاق کی سختی، باہم مربوط قبائلی نظام اور ’’بائبلی ناموں‘‘ کے ساتھ وابستگی جو انہوں نے قرآن مقدس سے اخذ کئے تھے، مثلاً آدم، ابراہیم، یعقوب، اسحاق، موسیٰ، عیسیٰ داؤد اور سلیمان وغیرہ۔ ان سب سے متاثر ہوکر ابتدائی انگریز عالموں اور مشنری پادریوں نے یہ رائے قائم کی کہ پٹھان نسلاً بنی اسرائیل ہیں، مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اور میں خود کو بزدل محسوس کر رہا ہوں کہ میں سرحد سے آدھی دنیا کے فاصلے پر یہ بات اپنی کتاب میں لکھ رہا ہوں جو میں کبھی ایک پٹھان کے منھ پر کہنے کی جرأت نہ کرسکا۔‘‘

The Way of the Pathans

The Way of the Pathans

درج بالا سطور میں نے جیمز ڈبلیو سپین کی کتاب ’’دی وے آف دی پٹھان‘‘ سے اخذ کی ہیں۔ یہ کتاب رابرٹ ہیل لمیٹڈ 63، اولڈ برامپٹن روڈ ایس ڈبلیو 7، لندن نے 1962ء میں شائع کی (صفحات 28,27)۔ کتاب مذکورہ کچھ عرصہ پہلے میرے ہاتھ آئی تھی، تو مجھے بہت دلچسپ لگی اور میں نے اس کے کچھ صفحات کا ترجمہ لکھ کر رکھا تھا۔ اس کے کچھ اوراق ’’فقیر ایپی‘‘ کے عنوان سے آپ پڑھ چکے ہوں گے۔ کتاب تو مالک نے واپس لے لی تھی۔ جمیل خان یوسف زیٔ کی کتاب ’’پختونوں کی جڑیں‘‘ پڑھنے کا موقعہ ملا، تو ان کاغذات کا خیال آیا۔ میں نے سوچا کہ آپ سے بھی شیئر کروں۔ اُمید ہے آپ کو یہ حقیر کوشش پسند آئے گی، شکریہ۔

ایک اور بات ! آج سے کوئی پچاس سال پہلے ایک امریکی کسی پختون کو یہ کہنے کی جرأت نہ کرسکا کہ اُن کا نظریہ صحیح نہیں۔ اور آج امریکہ، پختون سرزمین پر آگ و خون کی بارش کرتا ہے۔ لاکھوں پختونوں کو ہلاک کرتا ہے اور ایک امریکی دن دہاڑے لاہور کی سڑک پر دو مسلمان نوجوانوں کو ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں گولی مار کر ہلاک کردیتا ہے اور صاف بچ کر اپنے وطن بھیج دیا جاتا ہے۔