عبدالودود نے اپنے بڑے بیٹے جہان زیب کو ولی عہد مقرر کرنے کے لیے 21 مئی 1923ء کو ایک دربار کا انعقاد کیا۔ چوں کہ ہر جرگہ اس دستاربندی میں سب سے آگے ہونے کا خواہش مند تھا، اس لیے فیصلہ کیا گیا کہ چند منتخب علما اور ملا قبائل کی جانب سے یہ فریضہ سرانجام دیں۔ دستار بندی سے قبل عبدالودود نے ایک تقریر کی: "آپ سب لوگوں کی خواہش تھی کہ میں اپنے سب سے بڑے بیٹے کو ولی عہد مقرر کروں۔ آپ کی موجودگی میں آپ کی خواہش کے مطابق میں اپنے بڑے بیٹے کو اس منصب کے لیے پیش کرتا ہوں۔ اور آپ کی موجودگی میں اپنے بیٹے کو اس بات کی تلقین کرتا ہوں کہ وہ میری طرح آپ کے ساتھ شرافت، نرمی اور مساوات کے اصول کو مدِنظر رکھ کر برتاؤ کرے۔ اُسے کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح نہیں دینی چاہیے اور وہ تمام وعدے پورے کرنے چاہئیں جو میں نے آپ میں سے کسی ایک فرد یا سب سے کیے ہیں۔ مجھے پوری امید ہے کہ انتظامی معاملات میں آپ لوگ اُس کا ایسا ہی ساتھ دیں گے جیسا کہ آپ میرا ساتھ دیتے رہے ہیں۔”
مندرجہ ذیل افراد نے درج شدہ ترتیب کے ساتھ دستار بندی کے اس عمل میں حصہ لیا۔ پاسنئی ملا (ابوبکر)، صاحب زادہ صاحب آف چندا خورہ، سنڈاکئی ملا، پاچا ملا آف بونیر، کاکا میاں آف نل کوٹ، سید حمز اللہ میاں آف سرداری، صاحبزادہ آف قلاگئی، اور مشر (بڑے) صاحبزادہ آف اوڈیگرام۔
سوات کی روایتی سیاسی قیادت کو جائز یا ناجائز طریقے اپنا کر زیر کرنے کے بعد عبدالودود نے ریاست کے اندر اپنی پوزیشن مستحکم کرلی۔ انگریز سرکار نے 15 مئی 1933ء کو میاں گل جہان زیب کو ان کے ولی عہد مقرر کیے جانے کے واقعہ کے ٹھیک دس سال بعد سرکاری طور پر ولی عہد تسلیم کرلیا۔ باچا صاحب اس کے فوراً بعد ولی عہد سے بدظن ہوگئے اور اُس کے اثر و رسوخ سے حسد کرنے لگے۔ 1935ء میں اُسے اختیارات سے محروم کر دیا گیا اور اُسے کہہ دیا گیا کہ "وہ ریاست میں نہ آئے۔” پانچ سال بعد اُسے دوبارہ بحال کیا گیا۔ صوبائی گورنر نے بیچ میں پڑ کر باچا صاحب اور ولی عہد کے درمیان مفاہمت کرائی۔ میاں گل جہان زیب اس کشیدگی کی وجہ وزیر برادران کی سازش کو قرار دیتے ہیں، لیکن اس کے اپنے بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ نہ صرف باپ کے خدشات اور حسد اس کا سبب تھا بلکہ ڈلہ (دھڑا) کے معاملات اور اقتدار کے لیے رسہ کشی کا بھی اس میں ہاتھ تھا۔ وزیر برادران ان معاملات میں اپنے مفادات کا تحفظ کرنے میں ناکام رہے اور اکتوبر 1943ء میں سوات سے چلے گئے۔ 12 دسمبر 1949ء کو باچا صاحب اپنے بیٹے کے حق میں تاج و تخت سے دستبردار ہوگئے، جس کے نتیجہ میں وہ سوات کے نئے حکمران بن گئے اور ریاست کے آخری والی ثابت ہوئے۔ بیٹے کے حق میں باچا صاحب نے تاج و تخت کو کیوں تج دیا؟ کیا یہ فیصلہ رضاکارانہ تھا؟ اس ضمن میں اُن کا اپنا بیان یہ بتاتا ہے:
"1949ء میں، مَیں نے یہ محسوس کیا کہ وہ عظیم کام جو میں نے اپنے ذمہ لیا تھا، تقریباً مکمل ہوچکا ہے۔ ریاست مستحکم بنیادوں پر قائم ہوچکی تھی۔ حکومت ٹھیک ٹھاک چل رہی تھی اور مستقبل بھی ہر لحاظ سے تاب ناک نظر آتا تھا۔ بڑھاپے کے اثرات بھی مجھ پر اسی طرح طاری ہونے لگے تھے کہ انہیں نظر انداز کرنا ممکن نہیں تھا۔ مسلسل ذہنی اور جسمانی دباؤ نے صحت کو خاصا خراب کرنا شروع کر دیا تھا۔ خوش ہونے کے باوجود میں مکمل طور پر تھک گیا تھا اور حکمرانی کی ذمہ داریاں نبھانا ممکن نہیں رہا تھا۔ علاوہ ازیں میرے دو خواب ابھی تشنۂ تکمیل تھے۔ ایک تو یہ تھا کہ میری ہمیشہ سے یہ خواہش رہی تھی کہ میں علم حاصل کروں۔ باالخصوص میں اپنے آپ کو قرآن و سنت کی تعلیمات سے مکمل طور پر آگاہ کرنا چاہتا تھا۔ میرا دوسرا خواب یہ تھا کہ میں سوات کے لوگوں کی روحانی اور اخلاقی تربیت بھی کرنا چاہتا تھا۔ اس کے لیے میرا خیال تھا کہ میں کچھ روشن فکر نفیس الطبع اہلِ علم کے ایک گروہ کے ساتھ اس مقصد کے حصول کے لیے گاؤں گاؤں جاؤں اور اسلامی تعلیمات کے مطابق لوگوں کی کردار سازی کی کوشش کروں، تاکہ وہ اچھے مسلمان بن سکیں۔ اس لیے میں نے یہ فیصلہ کیا کہ تاج و تخت سے دست بردار ہوجاؤں اور ریاست کے سارے انتظامی معاملات اپنے بیٹے میاں گل جہان زیب کو سونپ دوں۔”
دست برداری کے بارے میں باچا صاحب کے بیان کا پشتو متن بھی کم و بیش یہی وجوہات بتاتا ہے جب کہ اس سلسلہ میں میاں گل جہان زیب کا بیان یہ ہے: "میرے والد نے تاج و تخت سے دست برداری کا فیصلہ کیوں کیا؟ وہ مجھ سے بے پناہ محبت کرتے تھے اور وہ مجھے حکمرانی کی اہلیت ثابت کرنے کا پورا موقع دینا چاہتے تھے۔ انہوں نے ایک بار مجھ سے کہا تھا کہ جب وہ حکمران بن گئے، تو وہ اس وقت کا انتظار کرنے لگے جب میں اتنا بڑا ہوجاؤں کہ وہ حکومت میرے حوالے کر دیں۔ میں 1935ء میں حکومت تمہیں دینا چاہتا تھا، لیکن پھر یہ افسوس ناک حالات پیدا ہوگئے۔ اس لیے اس کام میں تاخیر ہوگئی۔ حکمرانی سے دست برداری کا خیال اُن کے لیے بھی اسی طرح باعثِ افسوس نہیں تھا جیسا کہ مجھے بھی ادغام کے بعد اس بات کا کوئی رنج نہیں کہ حکومتِ پاکستان نے ریاست مجھ سے لے لی ہے۔ اصل بات تو یہی تھی۔ اس کے علاوہ ایک ضمنی بات اور بھی ہے۔ اس سے ایک ایسے انسانی جذبہ کا اظہار ہوتا ہے جس کا تجربہ کسی کو بھی ہوسکتا ہے۔ وہ یہ محسوس کرتے تھے۔ مجھے اس بات کا اس لیے پتا ہے کہ انہوں نے ایک بار خود مجھے اس بارے میں بتایا تھا۔ یہ کہ اس ریاست کو انہوں نے بنایا تھا اور اگر کسی وجہ سے یہ جیسے ادغام وغیرہ سے اُن کے عہد میں ختم ہوجائے، تو یہ اُن کے لیے باعث ندامت ہوگا۔ وہ چاہتے تھے کہ یہ صحیح صورت میں اُن کے وارث کو منتقل ہوجائے، تاکہ اُن کا نام ریاست کی بنیاد رکھنے اور اُسے بنانے والے کی حیثیت سے باقی رہے۔”
باپ اور بیٹے کے بیانات ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں اور کسی ایسی بنیادی غلطی کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس کے لیے وضاحتیں دینے کی ضرورت ہو۔ دست برداری کی جو وجوہات دونوں نے بیان کی ہیں، ان پر یقین کرنا خاصا مشکل ہے۔ لگتا ہے کہ یہ باتیں یوں ہی بھرم رکھنے کے لیے کی جا رہی ہیں۔ باچا صاحب کی پوزیشن بہت مضبوط تھی اور وہ تخت پر بیٹھ کر لوگوں کی اخلاقی اور روحانی تربیت کا کام زیادہ مؤثر طور پر کرسکتے تھے۔ یہ بات بھی شک میں ڈالنے والی ہے کہ تخت سے دست برداری کے بعد وہ اپنے اس تبلیغی مہم پر کبھی نہیں نکلے اور نہ انہوں نے گاؤں گاؤں کا دورہ ہی کیا۔
مختلف شواہد اور بیانات سے بآسانی یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ تخت سے دست برداری دراصل اقتدار کے حصول کی طویل کش مکش میں ولی عہد کی فتح تھی۔ یہ اوپر سے سیاسی قوتوں کے دباؤ کا نتیجہ تھا۔ اس مقصد کے لیے بیٹے نے ریشہ دوانی کی ایک طویل مہم چلائی اور بالآخر باپ کو تخت چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ میاں گل جہان زیب نجی طور پر (اپنے ولی عہد کا حقارت سے ذکر کرتے ہوئے) عموماً اعتراف کرتے تھے کہ "میں نے یہ (حکومت) بزورِ بازو حاصل کی ہے۔” اور باپ اپنی بقیہ زندگی اقتدار چِھن جانے پر مغموم اور کبیدہ خاطر رہے۔ (کتاب ریاستِ سوات از ڈاکٹر سلطانِ روم، مترجم احمد فواد، ناشر شعیب سنز پبلشرز، پہلی اشاعت، صفحہ 94 تا 96 سے انتخاب)