اقتدار میں آنے کے بعد عبدالودود کو علاقہ سیبوجنی کے تاج محمد خان اور اُس کے حامیوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ رفتہ رفتہ اُس کی پوزیشن مستحکم ہوتی چلی گئی اور وہ چند سرکردہ خوانین جو اُس کی ہم سری کے اہل تھے، یا تو گروہی تنازعات یا دوسرے طریقوں سے مغلوب کر لیے گئے۔ 1929ء کے اختتام تک عبدالودود اور ریاست دونوں اتنے مضبوط ہوگئے تھے کہ نمایاں مخالفین میں سے کچھ ہمیشہ کے لیے منظر سے غائب ہوگئے اور کچھ مختصر عرصہ کے لیے سامنے سے ہٹ گئے۔
29 دسمبر 1927ء کو حبیب خان المعروف دارمئی خان اُس وقت ایک چٹان سے گر کر ہلاک ہوگئے، جب وہ والئی سوات (عبدالودود) کے ہمراہ مار خور کا شکار کرنے کی مہم پر نکلے ہوئے تھے۔ حبیب خان کے اُس سے دوستانہ مراسم اُس وقت سے کشیدہ ہوگئے تھے، جب عبدالودود نے ایک دوسرے قبیلہ پر حملہ کرنے کی وجہ سے اُس کے قبیلہ پر چھے ہزار روپے جرمانہ اور اُن کے جلائے ہوئے گھروں کی از سرِ نو تعمیر کا حکم دیا تھا۔ یکم جنوری 1928ء کو دُرشخیلہ جاکر انہوں نے حبیب خان کے جانشین کے طور پر اُس کے سب سے بڑے بیٹے محمد رسول خان کی دستار بندی کی۔ خیر سگالی کے اس اظہار سے وہ دراصل حبیب خان کی موت سے اپنی بریت ثابت کرنا چاہتا تھا "جس کے بارے میں عمومی تاثر یہ تھا کہ یہ موت حادثاتی نہیں تھی۔”
عبدالودود کی طرف سے اس اظہارِ بریت کے باوجود ستمبر 1928ء میں جب وہ پیتیٔ (فتحپور) کے دورہ پر تھا، دارمئی خان کے بیٹوں نے حبیب اللہ خان المعروف میاں دم خان کے ساتھ مل کر اُس پر شب خون مارا۔ یہ کوشش ناکام ہوگئی اور حملہ آور دیر فرار ہوگئے۔ اس سے عبدالودود کی پوزیشن مزید محفوظ ہوگئی اس لیے کہ اس طرح ایک نافرمان مضبوط مخالف گروہ ریاست سے نکل گیا اور ابتری کی کیفیت سے دوچار ہوگیا۔ نتیجتاً اس سے ان کا ڈلہ (دھڑا) کمزور ہوگیا اور عبدالودود مضبوط تر ہوگیا۔
1902-3ء میں کسی باہمی گروہی جھگڑے میں سوتیلے بھائی میرداد خان کی ہلاکت کے بعد جمروز خان بابوزئی قبیلہ میں مضبوط ترین شخص بن کر ابھرے تھے۔ اُس نے اپنے قبیلہ کے ہمراہ اقتدار کے پہلے ہی سال عبدالودود سے اپنی حمایت واپس لے لی اور اُس کے بھائی میاں گل شیرین جان کا ساتھ دینا شروع کیا۔ اُس نے عبدالودود کے لوگوں کو غیر مسلح کرنے کی بھی مخالفت کی۔ 23 ستمبر 1928ء کو وہ اپنے بھتیجے پیر محمد خان کے ہاتھوں مارا گیا۔ جمروز خان کے خاندان کی اہمیت مزید کم کرنے کے لیے عبدالودود نے قاتل کے باپ جانس خان کو جمروز خان کے ڈلہ (دھڑا) کا سربراہ بنا دیا۔ اسی مہینے میں شموزئی علاقہ کے ایک ممتاز اور بااثر شخص کامران خان کو سیدو بلا کر قید کر دیا گیا۔
سیبوجنی کے امیر خان اور اُس کے بھائی محمد سید خان (المعروف شنگواٹئی خوانین) کا تعلق دارمئی خان کے بیٹوں کے ڈلہ (دھڑا) سے تھا۔ انہوں نے اپنے ڈلہ (دھڑا) کے ہمراہ دوستی کا حلف لیا۔ محمد سید خان کو عبدالودود نے سیدو بلایا۔ وہ اپنے ساتھ جو چالیس عدد رائفلیں لایا تھا، وہ ضبط کرلی گئیں۔ یکم اکتوبر 1928ء کو وہ سیدو سے تھانہ فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔ اس اطلاع کے ملتے ہی اُس کا بھائی امیر خان 160 رائفل بردار حامیوں کے ساتھ دیر چلا گیا۔ فروری 1929ء میں حبیب خان اور میاں دم خان کے ایک رشتہ دار خوشحال خان کو جو بیدرہ میں رہتے تھے "سوات سے جلاوطن کرکے اُس کی جائیداد ضبط کرلی گئی۔”
اس طرح وہ طاقتور خوانین جن کی وفاداریاں مشکوک تھیں یا تو بزور منظر سے ہٹا دیے گئے یا انہیں مجبور کیا گیا کہ وہ خود ہی چلے جائیں یا اثر و رسوخ چھین کر انہیں گمنامی میں دھکیل دیا گیا اور ان کی جگہ ان کے حریفوں کو آگے لایا گیا یا انہیں مفاہمت پر مجبورکردیا گیا۔ (کتاب ریاستِ سوات از ڈاکٹر سلطانِ روم، مترجم احمد فواد، ناشر شعیب سنز پبلشرز، پہلی اشاعت، صفحہ 92 تا 94 سے انتخاب)