انگریز حکومت نے چیف کمشنر کے توسط سے سوات پر عبدالودود کی حکومت کی خاموش منظوری دے دی تھی، لیکن وہ اس کی آزادی کو شک کی نظر سے دیکھتے تھے۔ اس لیے انہوں نے اُسے باقاعدہ طور پر تسلیم کرنے میں کچھ وقت لیا۔ اُس نے اپنے طور پر ان کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کی جس کے بغیر وہ اپنی پوزیشن مستحکم نہیں کرسکتا تھا۔
21 مئی 1923ء کو عبدالودود نے اپنے سب سے بڑے بیٹے کو اپنا ولی عہد مقرر کرنے کے لیے ایک دربار کا انعقاد کیا۔ دوسرے دن منعقد ہونے والے دربار میں اُس کی طرف سے اُس کے وزیر حضرت علی نے ایک لمبی تقریر سنائی جس میں اُس نے برطانوی حکومت کے لیے اپنی سچی دوستی اور وفاداری کا اعلان کیا اور سامعین کو بھی تلقین کی کہ وہ بھی اپنے قول و فعل سے اسی بات کی گواہی دیں۔ اُس نے کمیونسٹوں کو اسلام دشمن قرار دیتے ہوئے پرُزور الفاظ میں ان کے مقاصد اور پروپیگنڈے کی مذمّت کی۔
پھر اُس نے تحریری طور پر پولیٹیکل ایجنٹ کو اپنے لیے "فرمانروائے یوسف زئی” کا لقب اختیار کرنے کی اطلاع دی۔ اس لقب کا انتخاب سیاسی اور سفارتی لحاظ سے خاصا معنی خیز اقدام تھا۔ نہ تو مستقبل میں ریاست کی حدود میں ہونے والی تبدیلی سے اس کو بدلنے کی ضرورت ہوگی اور اپنے سب سے بڑے دشمن نواب دیر کو بھی "اس سے زیادہ سے زیادہ ذہنی تکلیف پہنچائی جاسکتی تھی۔” تاہم برطانوی حکومت نے اسے ایک مناسب لقب نہیں سمجھا۔ مارچ 1926ء میں پولیٹیکل ایجنٹ کے دورہ اور جرگوں سے ملاقاتوں کے بعد انہوں نے صورتِ حال کا مختصر جائزہ یوں لیا۔ "بہ ظاہر سب کچھ ٹھیک ٹھاک نظر آتا ہے۔ بلاشک و شبہ میاں گل ایک مضبوط اور اہل حکمران لگتا ہے، لیکن قبائلی معززین میں اُس کے خلاف جذبات پائے جاتے ہیں۔ جن سے اوّل تو وہ کوئی مشورہ لیتا ہی نہیں اور اگر لے بھی لیتا ہے، تو اُس پر عمل بالکل نہیں کرتا۔ اور عوام الناس میں بیگار کی وجہ سے اُس کے خلاف ناراضگی پائی جاتی ہے، لیکن وہ بیرونی جارحیت کے خوف کی وجہ سے اُس کی مستحکم حکومت کو پسند کرتے ہیں۔”
3 مئی 1926ء کو چیف کمشنر سیدو شریف گئے اور منعقدہ دربار میں "میاں گل کو والئی سوات کی حیثیت سے باقاعدہ تسلیم کر لیا گیا۔” لوگوں نے میاں گل عبدالودود کو "باچا” یا "بادشاہ” کا خطاب دیا اور انہیں "باچا صاحب” کہتے تھے لیکن برطانوی حکام اس لقب کو صرف اپنے بادشاہ کے لیے مختص گردانتے تھے۔ ا س لیے ہندوستان کے کسی حکمران کو یہ خطاب نہیں دیا گیا۔ ان کی طرف سے نواب کے لقب کی پیش کش کی گئی، لیکن عبدالودود نے "بادشاہ” سے نواب بنائے جانے کی تنزلی کو پسند نہیں کیا اور بالآخر "والی” کے لقب کو قبول کیا جس کا مطلب "حکمران” ہے۔
عبدالودود والی کہلائے جانے پر خوش نہیں تھے لیکن اس عظیم طاقت کے آگے سر جھکائے ہی بنی۔ دسمبر 1927ء میں انہوں نے ایک بار اور باچا کے لقب کے لیے برطانوی حکام سے رابطہ کیا، لیکن قریبی افسران کی سفارش کے باوجود اس درخواست کو رد کر دیا گیا۔ قسمت کی عجب ستم ظریفی ہے کہ عبدالجبار شاہ جسے برطانوی حکومت نے "نام نہاد”، "خود ساختہ” اور "برائے نام” بادشاہ قرار دیا تھا، اُس کا سرکاری خط و کتابت میں اکثر و بیشتر بادشاہ یا سوات کا سابقہ بادشاہ کے نام سے حوالہ دیا گیا ہے لیکن میاں گل عبدالودود اپنی حیثیت کے باوجود انگریز حکومت سے اپنی اس خواہش کو نہیں منواسکا۔تاہم "برطانوی حکومت کی جانب سے سوات میں عدم مداخلت یا اس کی علاقائی خود مختاری کے احترام کی پالیسی نے مقامی سیاسی توازن کو مستقلاً والی (عبدالودود) کے حق میں کر دیا۔ انگریز سرکار کی اس تائید و حمایت نے والی کے ا قتدار کو استحکام دلانے میں اپنا کردار ادا کیا۔”
انگریزوں کی طرف سے والئی سوات تسلیم کیے جانے کے بعد عبدالودود کی پوزیشن مضبوط ہوگئی اور اسے مزید مستحکم کرنے کے لیے اُس نے تگ و دو شروع کر دی۔ اس ضمن میں اُس کا پہلا قدم اپنی رعایا کو غیر مسلح کرنا تھا۔ اس کے لیے اُس نے برطانوی حکومت سے یقین دھانی حاصل کرنی چاہی کہ لوگوں کی طرف سے بغاوت کی صورت میں اُس کی مدد کی جائے گی، لیکن برطانوی حکومت اُسے یہ یقین دہانی نہیں کراسکتی تھی۔ اس کی وجہ 3 مئی 1926ء کو سیدو کے مقام پر طے پانے والے معاہدہ میں یہ اختتامی جملہ تھا جس میں کہا گیا تھا کہ "اس معاہدہ کے تحت برطانوی حکومت میاں گل کی حکومت کی مسلح امداد نہیں کرے گی۔” اورکچھ اور بھی عوامل تھے۔ بہرحال اُس نے سفارتی ہنرمندی سے کام لے کر اپنا مقصد حاصل کرلیا، جس سے اُس کی پوزیشن مزید مستحکم ہوگئی۔ (کتاب ریاستِ سوات از ڈاکٹر سلطانِ روم، مترجم احمد فواد، ناشر شعیب سنز پبلشرز، پہلی اشاعت، صفحہ 90 تا 92 سے انتخاب)