سوات میں آثارِ قدیمہ پر پہلی دفعہ اٹلی کی حکومت نے کام کیا  اور یہ سب کچھ اٹلی کے مشہور ماہرِ آثارِ قدیم پروفیسر ٹوچی کی خصوصی دل چسپی کی وجہ سے ممکن ہوا۔ اٹلی کے آثارِ قدیمہ کا مشن (Italian archaeological mission) اُنیس سو چھپن (1956ء) میں پروفیسر ٹوچی کی سربراہی میں ریاستِ سوات آیا اور انھوں نے باضابطہ طور پر سوات کے آثارِ قدیمہ پر کام شروع کیا۔ یہاں جو قدیم نوادرات برآمد ہوتے ایک "ایگریمنٹ” کے تحت اس کا کچھ حصہ اٹلی منتقل کیا جاتا اور باقی کے لیے سوات میں میوزیم کی بنیاد رکھی گئی۔ اس مقصد کے لیے پہلے پہل جہاں زیب کالج میں ایک کمرہ مختص کیا گیا لیکن بعد ازاں اس کے لیے باقاعدہ طور پر ایک الگ بلڈنگ تعمیر کی گئی جس کی تزئین و آرائش اٹلی حکومت کے تعاون سے 1963ء میں کی گئی۔ جب میوزیم مکمل طور پر تیار ہوا، تو اٹلی وہ پہلا ملک تھا جہاں سے خصوصی وفد نے سوات میوزیم کا دورہ کیا اور اٹلی مشن برائے آثارِ قدیمہ کو مستقل طور پر یہاں کام کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ ابتدائی طور پر اٹالین مشن اور ریاستِ سوات کے حکم رانوں کے درمیان یہ معاہدہ طے پایا تھا کہ برآمد ہونے والے نوادرات میں سے آدھا حصہ روم منتقل کیا جائے گا اور آدھا یہاں محفوظ ہوگا لیکن 1970ء میں پرو فیسر ٹوچی نے یہ معاہدہ منسوخ کیا اور کہا کہ جو نوادرات جس زمین سے دریافت ہوں، ان پر اسی علاقے کا حق ہے۔

جہان آباد بدھا کی بحالی کے موقع پر اٹالین آرکیالوجیکل مشن کا بلوایا ہوا ایک ماہر مصروف عمل ہے۔ (فوٹو: فضل خالق)

اس وقت اٹالین آرکیالوجیکل مشن کے ڈائریکٹر ڈاکٹر لوکا ماریا اولیوری ہیں جن کے مطابق یہ مشن 1956ء سے لے کر آج تک یہاں مصروف عمل ہے۔ 1980ء کی دہائی سے یہ مشن مختلف سرگرمیوں میں مصروف ہے جن میں بری کوٹ کے مقام پر قدیم بازیرہ کی کھدائی، اوڈی گرام کے مقام پر محمود غزنوی مسجد کی دریافت اور کھدائی اور تیسرا اہم کام جو 1980ء کی دہائی میں شروع کیا گیا ہے، وہ سوات کے آرکیالوجیکل مقامات کا نقشہ تیار کرنا ہے۔ ڈاکٹر لوکا ماریا الیوری کے مطابق انھوں نے سوات میں قریباً 400 مختلف تاریخی مقامات دریافت کیے ہیں۔ 2006ء میں اٹلی اور پاکستان کی حکومتوں کے باہمی تعاون سے ایک بڑا منصوبہ شروع کیا جانا تھا، لیکن وادئی سوات میں شورش کی وجہ سے اس پر کام نہ ہوسکا۔ ڈاکٹر لوکا کا کہنا ہے کہ اب ہم نے وہی منصوبہ دوبارہ شروع کیا ہے جس پر 200 ملین یورو لاگت آئے گی۔ اس منصوبے میں بری کوٹ کے مقام پر کھدائی، آثارِ قدیمہ کی حفاظت اور ان آثار کو عام لوگوں کی نمائش کے لیے کھولنا شامل ہے۔ اس طرح اوڈی گرام میں آثارِ قدیمہ کی بحالی، سیدو شریف سٹوپا کی بحالی، سوات میوزیم کی بحالی اور ان سب کو عوام کی نمائش کے لیے کھولنا، اس کے علاوہ طلبہ اور اساتذہ کے لیے سیدو شریف میں سٹڈی سنٹر کا قیام یہ سب اٹالین آرکیالوجیکل مشن کے منصوبے کا حصہ ہیں۔ اس منصوبے کے تحت مقامی افراد بہ شمول 230 طلبہ اور سرکاری افسروں کو آثارِ قدیمہ کے مختلف اُمور میں عملی تربیت بھی دی جائے گی، اور یونی ورسٹی کے طلبہ کو فیلڈ میں عملی کام کے ساتھ متعلقہ آلات بھی فراہم کیے جائیں گے۔ مذکورہ منصوبہ اٹلی کا ایک معتبر ادارہ ایسیاؤ (ISAEO) اور پاکستان کا محکمہ آثارِ قدیمہ مشترکہ طور پر عمل میں لائے گا۔ (فضل ربی راہی کی کتاب "سوات سیاحوں کی جنت” سے انتخاب)