گوگدرہ، سوات کا یہ خوب صورت گاؤں اُوڈی گرام سے قریباًدو کلومیٹر کے فاصلے پر جرنیلی سڑک پر واقع ہے۔ یہاں ایک چٹان پر کندہ کچھ جانوروں کی شکلیں دریافت ہوئی ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا تعلق قدیم ایران سے ہے۔ گوگدرہ کے قدیم کھنڈرات کا تعلق گیارہ یابارہ سو قبل مسیح سے لے کر پہلی صدی عیسوی تک لگتاہے۔ یہاں گوتم بدھ کے چند مجسّمے بھی دریافت ہوئے ہیں، تاہم اکثر مجسمے مقامی لوگوں نے توڑ دئیے ہیں یا ان کے چہرے مسخ کیے ہیں۔
گوگدرہ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع غالیگے گاؤں بہت قدیم ہے۔ اس کااندازہ یہاں سے برآمد ہونے والے آثارِ قدیمہ سے ہوتا ہے۔ یہاں بھی پہاڑی چٹانوں پر جانوروں کی تصویریں، مثلاً بیل ،گائے، گھوڑے اور مارخور وغیرہ کی تصاویر کندہ ہیں۔ غالیگی میں سڑک کے کنارے پہاڑ کی بلندی پر ایک بہت بڑا بت کندہ ہے، جس کے اوپر ایک اوربت بھی کندہ ہے جس سے یہاں کی قدامت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ غالیگی کی غیر معمولی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ریاستِ سوات میں جب پہلی مرتبہ1850ء میں سید اکبر شاہ کی قیادت میں ایک شرعی اور اسلامی حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا، تو غالیگی کواس کا دارالخلافہ قرار دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ یوسف زئی قبیلہ کے بزرگ اور عظیم مقنن شیخ ملی بابا کا انتقال بھی اسی گاؤں میں ہوا تھا۔ اس وجہ سے سوات کی تاریخ میں غالیگے گاؤں کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔
شنگردارگاؤں بھی لبِ سڑک غالیگے سے قریباً ایک کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہاں بُدھ مت کا ایک بہت بڑا سٹوپا موجود ہے جو کافی اچھی حالت میں ہے۔ اس سٹوپا کے گنبد کا قطر 162 اوراونچائی 90 فٹ ہے۔ یہ ’’شنگردار سٹوپا‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ سوات کے مشہور محقق اور ادیب محمد پرویش شاہینؔ کی تحقیق کے مطابق شنگر دار کا لفظ شنگریلا سے نکلا ہے جو تبتی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی دیوتاؤں کی جگہ کے ہیں۔ کہا جاتاہے کہ اس سٹوپا میں مہاتما گوتم بدھ کی راکھ کا کچھ حصہ دفن ہے۔ اس سٹوپا کی زیارت کے لیے دنیا بھر سے بُدھ زائرین اور مختلف ممالک کے سیاح آتے رہتے ہیں اور اس کی زیارت سے روحانی فیض حاصل کرتے ہیں۔
سکندرِ اعظم کے دور کا ’’بازیرہ‘‘ اور آج کا بریکوٹ سوات کا ایک قدیم قصبہ ہے جو مینگورہ سے تقریباً 15 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ ایک بڑا تجارتی مرکز ہے۔ اس کے خوب صورت بازار میں ضروریاتِ زندگی کی ہر چیز دست یاب ہے۔ یہاں سے ایک سڑک جنوب کی طرف ضلع بونیر تک چلی گئی ہے اور دوسری سڑک بری کوٹ غونڈئی کے قریب شمالاً شموزئی نامی علاقے کی جانب مڑ گئی ہے۔ جہاں نیموگرام اور ڈیڈہ ورہ نامی مقامات میں آثارِ قدیمہ واقع ہیں۔ سوات بھر میں نیموگرام کے آثارِ قدیمہ بہت اچھی حالت میں ہیں۔ بری کوٹ سے قریباً دو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک اور مقام نجی گرام ہے جہاں کی وسیع اراضی میں آثارِ قدیمہ دریافت ہوئے ہیں۔ ان آثار سے پتا چلتا ہے کہ قدیم زمانے میں یہاں بدھ مت سے متعلق ایک یونی ورسٹی قائم تھی جہاں بُدھ مذہب کی تعلیمات کے علاوہ طالب علموں کو سنگ تراشی کی تربیت بھی دی جاتی تھی۔ بری کوٹ میں بھی بہت سے قدیم آثار دریافت ہوئے ہیں۔ جن میں بری کوٹ غونڈئی کے آثار زیادہ شہرت رکھتے ہیں۔ ان کا تعلق 1700 قبل مسیح سے جوڑا جاتا ہے۔ تاریخ کی کتابوں میں مذکور ہے کہ سکندرِ اعظم نے وادئی سوات میں جن چار مقامات پر خوں ریز لڑائی لڑی تھی، ان میں بری کوٹ بھی شامل ہے۔ اس زمانے میں بری کوٹ کا نام’’بازیرا‘‘ تھا۔
بری کوٹ سے چند کلومیٹر آگے ابوہا، کوٹہ اور لنڈاکی چیک پوسٹ واقع ہیں۔ ابوہا اور کوٹہ دونوں گاؤں سوات کی تاریخ میں غیر معمولی اہمیت رکھتے ہیں۔ کیوں کہ ریاستِ سوات کے قیام میں یہاں کے معززین کا بڑا ہاتھ تھا۔ یہاں بھی آثارِ قدیمہ وسیع علاقے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ ابوہا کا گاؤں نیمبولا اور بیگم جان کے رومان کے لیے بہت مشہور ہے۔ روایات کے مطابق یہاں کی ایک دوشیزہ پر نیمبو لا نامی ’’جن‘‘ عاشق ہوا تھاجس کو ملا بہادرنامی مولوی نے جلایا تھا۔ بعد میں جن کے لواحقین نے ملا بہادر کوسنگین نتائج کی دھمکیاں دیں جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ باوضو رہتا تھا۔ ایک دن جب وہ باوضو نہیں تھا، تو نیمبولا کے رشتہ دار جنوں نے اس کو مسجد میں پھانسی دی اور پھر اس کی لاش کو ابوہا کی ایک پہاڑی پر لٹکا دیا۔ کوٹہ میں ریاستی دور کا ایک مشہور قلعہ تھا جس کو حال ہی میں مسمار کردیا گیا، حالاں کہ ضرورت اس اَمر کی تھی کہ اس قلعہ کو قومی ورثہ کی حیثیت سے محفوظ کرلیا جاتا اور اُسے سیاحوں کے لیے پُر کشش بنا دیا جاتا، لیکن جس طرح ریاستی دور کے دیگر نشانات بڑی بے دردی سے مٹائے جا رہے ہیں، اسی طرح اس قلعہ کوبھی صفحۂ ہستی سے نابود کردیا گیاہے۔لنڈاکی ضلع سوات کی آخری حد پر واقع ہے۔ اس سے آگے ملاکنڈ ایجنسی کا علاقہ شروع ہوتا ہے۔ لنڈاکی ایک خوب صورت گاؤں ہے جو عین دریائے سوات کے کنارے پر واقع ہے۔ یہا ں کے قدرتی مناظربہت د ل فریب ہیں۔ یہاں سیاحوں کی سہولت کے لئے کئی ریسٹورنٹ عین دریائے سوات کے کنارے بنے ہوئے ہیں۔ جن میں دریائے سوات کی تازہ مچھلی ہر وقت ملتی ہے۔ سوات آنے والے سیاح اپنے طویل سفر کی تھکاوٹ، خوب صورت مناظر سے گھرے ہوئے ان ریستورانوں میں مختصر قیام سے باآسانی دور کر سکتے ہیں اور دریائے سوات اور اس کے قرب میں بکھرے ہوئے حسین مناظر سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ (فضل ربی راہیؔ کی کتاب سوات سیاحوں کی جنت سے انتخاب)