سب عوامل، واقعات اور مجموعی تناظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ عبدالجبار شاہ کی پوزیشن بے حد کمزور تھی۔ چوں کہ اس کا اس مٹی سے تعلق نہیں تھا، اس لیے یہاں نہ تو اُس کا اپنا کوئی خاص گروہ تھا، نہ حمایت ہی تھی۔ نہ تو اُس نے سواتی قیادت کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کو ختم کرنے کی کوشش کی اور نہ اُن کے درمیان کوئی توازن برقرار رکھا بلکہ وہ تو مختلف جھگڑوں میں جانب داری سے کام لیتا رہا، جیسے کہ زرین خان والے معاملے میں۔ جہاں تک عام لوگوں کا تعلق ہے، تو وہ نہ تو انہیں انصاف فراہم کرسکا اور نہ ہی اُن کی حفاظت کا کوئی مناسب انتظام۔ ان کی غربت میں کسی طرح کی کوئی کمی لانے کے لیے نہ تو اُس کے پاس وقت تھا اور نہ ہی اُس کا کوئی ایسا لگاؤ تھا۔ وہ انہیں نوابِ دیر کے ظالم حکام کی دست درازی سے بچاسکا اور نہ ہی نواب دیر کے حملوں کے خوف کو کم کرسکا۔
دیر سے مستقبل کی ممکنہ جنگ کے نام پر اُس نے انتہائی غیر مقبول قسم کے ٹیکس لگائے اور اپنی فوج میں شامل ہونے کے لیے اُس نے ہر قبیلہ سے افراد مانگے جو لوگوں کی ناراضگی کا بڑا سبب بنا۔ میاں گل برادران اور اُن کے حامیوں کے خیال میں وہ غاصب تھا۔ حالاں کہ ابتدا میں وہ سنڈاکئی بابا کی حمایت اور سرپرستی میں حکومت کرتا رہا، لیکن انگریز سرکار کا حامی ہونے کی وجہ سے وہ سنڈاکئی بابا کی اس اہم ترین مدد و حمایت سے محروم ہوگیا۔ ان سب پر مستزادیہ کہ اُس کے بارے میں اس بات کا علم ہوا کہ وہ قادیانی ہے، جنہیں عام مسلمان انتہائی قابلِ نفرت سمجھتے ہیں۔
عبدالجبار شاہ کے خیال میں سوات کے سب مسائل کا واحد حل یہ تھا کہ انگریز سرکار اسے اپنے قبضہ میں لے۔ وہ تو دل و جان سے برطانوی حکومت کا وفادار تھا، لیکن وہ اُسے ہمیشہ ’’سوات کا برائے نام بادشاہ‘‘، ’’سوات کا نام نہادبادشاہ‘‘ اور ’’خود ساختہ بادشاہ‘‘ کے نام سے پکارتے رہے۔ نہ تو انہوں نے اُسے صحیح بادشاہ تسلیم کیا اور نہ ہی اُس کی کوئی ایسی پوزیشن تھی کہ ان کے مطالبات پورے کرتا، یا اُن کے مفادات کی حفاظت کرتا۔
چوں کہ اس بات سے کئی لوگوں کے مفادات وابستہ تھے، اس لیے عبدالجبارشاہ کا متبادل لایا جانا ضروری تھا۔ 2 ستمبر 1917ء کونل قلعہ شامیزئ میں سوات بالا کے نیک پی خیل، سیبوجنی، شامیزئی، متوڑیزئی اور بابوزئی قبائل کا ایک مشترکہ جرگہ منعقد ہوا’’جس میں سوات بالا کے مستقبل کی حکومت کے مسئلہ پر غور کیا گیا۔‘‘ انتہائی غور وخوض کے بعد عبدالجبار شاہ کو مطلع کردیا گیا کہ اب لوگوں کو مزید اُس کی خدمات درکار نہیں ہیں۔ اس لئے’’وہ چار ستمبر کو فوراً سوات سے چل دیا۔‘‘ (کتاب ریاستِ سوات از ڈاکٹر سلطانِ روم، مترجم احمد فواد، ناشر شعیب سنز پبلشرز، پہلی اشاعت، صفحہ 78 تا 79 سے انتخاب)